کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 45
4۔ اہل کتاب (یہود ونصاری) عہدِ صحابہ میں تفسیر قرآن کا چوتھا مصدر نو مسلم اہل کتاب اور یہود ونصاریٰ تھے کہ قرآن کریم بعض تاریخی مسائل میں عموماً اور انبیائے کرام﷩ اور دیگر اقوامِ سابقہ کے قصص میں خصوصاً تورات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کے بعض بیانات انجیل سے بھی ملتے ہیں مثلاً سیدنا عیسیٰ کی ولادت اور ان کے معجزات وغیرہ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْ اِلَيْهِمْ فَسَْٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ٭ بِالْبَيِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ﴾ [1] ’’ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے بھی ہم مردوں کو ہی بھیجتے رہے ، جن کی جانب وحی اتارا کرتے تھے پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم (اہل کتاب) سے دریافت کر لو، دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ۔‘‘ البتہ قرآن کریم نے جو طرز ومنہاج اختیار کیا ہے، وہ تورات وانجیل کے اسلوبِ بیان سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ قرآنِ کریم کسی واقعہ کی جزئیات وتفصیلات بیان نہیں کرتا بلکہ واقعہ کے صرف اسی جزو پر اکتفاء کرتا ہے جو نصیحت وموعظت کے نقطۂ نگاہ سے ضروری ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ تفصیلی واقعہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ بعض صحابہ ان تاریخی واقعات کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے نو مسلم اہل کتاب مثلاً سیدنا عبد اللہ بن سلام ، کعب الاحباررحمہ اللہ اور دیگر علمائے یہود ونصاریٰ کی جانب رجوع کرتے تھے اور پھر ان اسرائیلیات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت (( حَدّثُوا عَن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ )) [2]کے مطابق بغیر تصدیق وتکذیب کے آگے بیان کر دیتے۔ مگر اہل کتاب کی جانب رجوع ایسے تاریخی واقعات کے بارے میں کیا جاتا تھا جس کے سلسلہ میں صحابہ نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں سنا ہوتا تھا۔ اس لئے کہ جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور منقول ہوتی تھی، اس کے ضمن میں صحابہ کرام کسی دوسرے کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ تفسیر قرآن کا یہ مصدر سابقہ مصادر کے مقابلہ میں بہت کم اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ تورات وانجیل میں تحریف ہو چکی ہے ۔ لہٰذاصحابہ کرام اہل کتاب سے، بعض تاریخی معاملات میں، وہی بات اخذ کرتے تھے جو ان کی شریعت سے ہم آہنگ ہو اور خلافِ قرآن باتوں کو صاف مسترد کر دیا کرتے تھے۔ بعض باتیں جو نہ شریعت کے موافق ہوتیں نہ مخالف ، ان کے بارے میں حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (( مَا حَدَّثَكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَلَا تُصَدّقُوهُمْ وَلَا تُكَذبُوهُمْ وَقُولُوا ءَامَنَّا بِ اللّٰہ وَرُسُلِه )) [3]کے مطابق سکوت اختیار کیا جاتا، نہ تصدیق کی جاتی
[1] سورة البقرة:2: 85 [2] صحیح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل: 3461 [3] السجستاني، أبو داؤد سليمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، كتاب العلم، باب رواية حديث أهل الكتاب: 3644، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م