کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 44
وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ [1] ’’ لیکن پھر بھی تم نے آپس میں قتل کیا اور آپس کے ایک فرقے کو جلا وطن کیا اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کے خلاف ایک دوسرے کی طرف داری کی، ہاں جب وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئے تو تم نے ان کے فدیے دئیے، لیکن ان کا نکالنا جو تم پر حرام تھا (اس کا کچھ خیال نہ کیا۔) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟‘‘ وحی الٰہی کی صحیح وضاحت اسی وقت ہو سکتی ہے جب کتاب اللہ کے نازل ہوتے وقت ان کے اس وقت کے حالات سامنے ہوں۔نزول قرآن کے اسباب اور واقعات متعلقہ سے آگاہی بھی اکثر قرآنی آیات کے فہم ومعرفت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (متوفیٰ702ھ) فرماتے ہیں: ’’بيان سبب النّزول طريق قوي في فهم معاني القرآن. ‘‘[2] ’’ سببِ نزول کا ذکر وبیان قرآن کے معانی کے سمجھنے میں بڑی حد تک مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جہاں تک قوتِ فہم، وسعت ادراک وعقل فراست کا معاملہ ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، جسے وہ چاہے اس سے نواز دے۔ بہت سی آیاتِ قرآنیہ ایسی ہیں جن کا معنیٰ ومفہوم نہایت دقیق وپوشیدہ ہے۔ اور صرف وہی شخص ان کے مطالب سے بہرہ یاب ہوتا ہے جو نورِ بصیرت رکھتا ہو، صحابۂ کرام خصوصاً کبار صحابہ اس سعادت سے فیض یاب ہوئے تھے۔ ’’سیدنا ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا علی بن ابی طالب سے عرض کیا کہ آیا قرآن کے سوا بھی آپ کے پاس وحی کا کچھ حصہ موجود ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ((لاَ وَالَّذِي فَلَقَ الحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللّٰہ رَجُلًا فِي القُرْآنِ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قُلْتُ وَمَا فِى الصَّحِيفَةِ قَالَ الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الأَسِيرِ ، وَأَنْ لاَ يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ (( [3] ’’ نہیں، اس ذات کی قسم جو دانہ اُگاتی ہے اور روح کو زندگی عطا کرتی ہے، ہمارے پاس اور تو کوئی شے موجود نہیں بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو قرآن کا فہم عطا کر دے، اور یا جو کچھ اس صحیفہ میں مرقوم ہے۔میں نے عرض کیا کہ اس رسالہ میں کیا ہے؟ فرمایا: دیت کے احکام، قیدیوں کو آزاد کرنا اور یہ کہ مسلماں کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔‘‘
[1] سورة البقرة:2: 85 [2] الإتقان في علوم القرآن: 1/108 [3] البخاري، أبو عبد اللّٰه، محمد بن إسماعيل، صحیح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب فكاك الأسير: 3047، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية، 1999م