کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 42
’’ اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا اگر کسی آیت کی وضاحت قرآنِ کریم سے نہ ہو رہی ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے فرامین سے اس کی تفسیر کر دیتے تھے، جیساکہ سیدنا عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ میں نے برسرِ منبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
﴿ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ﴾: ((أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ((. [1]
’’ان(کافروں)کے خلاف حسب ِاستطاعت قوت تیار رکھو، خبردار! (اس آیت میں) قوت سے مراد تیر اندازی ہے، خبردار! قوت سے مراد تیر اندازی ہے، خبردار! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔‘‘
3۔ اجتہاد واستنباط
صحابہ کرام خالص عرب تھے، انتہائی فصیح وبلیغ کلام کرتے تھے، قرآنِ کریم ان کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا تھا ۔ اگر انہیں کسی آیت کی تفسیر نہ قرآن میں ملتی اور نہ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کچھ وضاحت فرمائی ہوتی تو پھر وہ اس سلسلے میں اپنی رائے واجتہاد سے کام لیتے۔ یہ ایسی آیات کے ضمن میں ہوتا، جہاں نظر وفکر کی ضرورت پڑتی ہے۔
’’سیدنا معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو پوچھا : (( کَیْفَ تَقْضِي؟ (( کہ کیسے فیصلے کرو گے؟ عرض کیا کہ کتاب اللہ کے مطابق! پوچھا : (( فَإِن لَّمْ يَكُن فِي كِتَابِ الله؟)) کہ اگر وہ کتاب اللہ میں نہ ہو؟ تو عرض کیا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق! پوچھا : (( فَإِن لَّمْ یَکُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟)) کہ اگر حدیث میں بھی نہ ہو؟ تو عرض کیا کہ اپنی رائے کے ساتھ اجتہاد کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الْحَمْدُ لله الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) کہ اس ذات کی تعریف جس نے اللہ کے رسول کے سفیر کو حق بات کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ [2]
جن آیات کا فہم وادراک عربی لغت پر موقوف ہوتا تھا وہاں اجتہاد سے کام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس لئے کہ صحابہ خالص عرب ہونے کی بنا پر عربوں کے اسالیبِ کلام سے بخوبی آشنا تھے۔ جاہلیت کی شاعری میں بصیرت
[1] النيسابوري، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، كتاب الإمارة، باب فضل الرّمي والحثّ عليه وذم من علمه ثم نسيه: 1917، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1998م
[2] الترمذي، أبو عيسى محمد بن عيسى، جامع الترمذي، كتاب الأحكام عن رسول الله، باب ما جاء في القاضي كيف يقضي؟: 1917، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1999م