کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 41
مقید پر اور عام کو خاص پر محمول کرے۔ یہ تفسیر القرآن بالقرآن ہے اور اس سے تجاوز کرنا کسی شخص کے لئے بھی موزوں نہیں کہ صاحبِ کلام سے بڑھ کر اور کوئی اس کے اسرار ورموز سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ ﴾[1] نازل ہوئی تو لوگوں پر بہت گراں گزری ،صحابہ کرام نے عرض کی، یا رسول اللہ! ہم سے کون سا شخص ایسا ہے جس سے ظلم نہ ہو جاتا ہو؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّهُ لَیْسَ الَّذِي تَعْنُونَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ العَبْدُ الصّالِحُ: ﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾ إِنّمَا هُوَ الشِّرْكُ(([2] ’’ اس سے وہ ظلم مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو ، کیا تم نے نیک بندے (سیدنا لقمان ) کی بات نہیں سنی کہ ’یقیناً شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘ اس آیت میں بھی ظلم سے مراد شرک ہے۔‘‘ اس حدیث ِمبارکہ سے واضح ہوگیا ہے کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تفسیر قرآن کے وقت یہ بات ملحوظ رکھتے تھے کہ پہلے تفسیر القرآن بالقرآن کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اس سے پہلا اصولِ تفسیر اَخذ ہوتا ہے۔ 2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا ماخذ جس کی طرف صحابہ کرام تفسیر قرآن کے سلسلے میں رجوع کیا کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تھی۔ جس کسی آیت کا معنیٰ ومفہوم ان کی سمجھ سے باہر ہوتا تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا مطلب دریافت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر روشنی ڈالتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ پر قرآنِ کریم نازل فرمایا، وہاں اس کا بیان بھی آپ کو سکھلایا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَه٭ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَه٭ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه﴾ [3] ’’ اس كا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے جبریل کے ذریعے آپ پر پڑھ لیں تو اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ۔ پھر اس کا واضح کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ قرآن کریم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی ہی کتابِ الٰہی کی تشریح وتبیین تھا۔ فرمان باری ہے: ﴿ وَ مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ﴾ [4]
[1] سورة الأنعام: 6 : 82 [2] أحمد بن حنبل، أبو عبد اللّٰه أحمد بن محمد، إمام، مسند الإمام أحمد بن حنبل: 6/68، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 2001م [3] سورة القيامة: 75 : 17ـ19 [4] سورة النّحل:16: 64