کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 40
في ذلك على بعض. ‘‘[1]
’’ قرآن کے غریب ومتشابہ کے علم ومعرفت میں سب عرب برابر نہیں ہو سکتے بلکہ اس ضمن میں ان کے درجات مختلف ہیں۔‘‘
مصادرِ تفسیر عہدِ نبوی وصحابہ میں
عہدِ رسالت میں صحابہ کرام کے ہاں تفسیر کے مصادر چار تھے:
1۔قرآنِ کریم 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 3۔اجتہاد 4۔اہل ِکتاب (یہود ونصاریٰ)[2]
1. قرآن كريم
یہ امر کسی سے مخفی نہیں کہ قرآن کریم میں احکامات کو پھیر پھیر کر ، مختلف انداز سے بار بار دُہرایا جاتا ہے، تاکہ مدّعا اچھی طرح واضح ہو جائے۔ توحید ورسالت، حجیتِ قرآن، ایمان بالیوم الآخر جیسے عقیدے کے مسائل، معاملات اور قصص وغیرہ کو کبھی کسی طریقے سے اور کبھی کسی طریقے سے واضح کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ اجمال ہے تو دوسری جگہ تفصیل ہے۔ جو چیز ایک اعتبار سے مطلق ہے تو دوسری جگہ دوسرے پہلو سے مقید ہے۔ ایک حکم ایک آیت میں عام ہے تو دوسری آیت میں خاص۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ﴾ [3]
’’ اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا﴾ [4]
’’ اور البتہ تحقیق ہم نے اس قرآن کریم میں (ہر چیز کو) پھیر پھیر کر بیان کیا تاکہ لوگ سمجھ جائیں۔‘‘
لہٰذا جو شخص قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک موضوع میں وارد ہونے والی تمام مکرّر آیات کو جمع کر کے ان کا تقابل کرے۔ اس طرح مفصّل آیات سے مجمل آیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور مبین آیات کا فہم وادراک مبہم کا مفہوم متعین کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کے لئے لازم ہے کہ مطلق کو
[1] القطان، مناع بن خليل، مباحث في علوم القرآن: ص8، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الطبعة الثالثة، 1421ھ
[2] أيضاً: ص35۔36
[3] سورة الزّمر: 39: 23
[4] سورة الإسراء: 17: 41