کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 39
بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:’’ أَنَا فَطَرْتُهَا‘‘، یعنی میں نے اس کی ابتداء کی تھی۔‘‘ [1]
ظاہر ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ حال ہے کہ وہ بعض مفرداتِ قرآن کے معانی دوسروں سے معلوم کرتے ہیں تو دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا کیا عالم ہوگا؟ اس میں شک نہیں کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کے اجمالی معانی پر اکتفاء کرتے تھے۔ مثلاً آیت ِقرآنی ﴿ وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّا﴾ [2]میں ان کے نزدیک یہ جان لینا کافی تھا کہ اس میں انعاماتِ ربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس آیت کے ہر لفظ کا مفہوم الگ الگ سمجھا جائے۔ [3]
صحيح بات يہ ہے کہ حضرات صحابہ فہمِ قرآن اور اس کے معانی ومطالب کے اظہار وبیان میں مساوی الدّرجہ نہ تھے۔ اس کے وجوہ واسباب یہ تھے کہ جمیع صحابہ ذہانت وفطانت اور زبان دانی میں یکساں نہ تھے۔ بعض صحابہ اس حد تک ماہر اللسان تھے کہ غریب الفاظ تک ان کی نگاہ سے اوجھل نہ تھے۔ بعض اس سے کم مرتبہ تھے۔ بعض صحابہ صحبتِ نبوی سے مقابلۃً زیادہ مستفید ہوتے اور اس کے نتیجہ میں آیات کے اسبابِ نزول سے دوسروں کی نسبت زیادہ واقف ہوتے۔ مزید برآں خدا داد استعداد اور ذہنی صلاحیتوں میں بھی سب صحابہ برابر نہ تھے۔
مشہور تابعی سیدنا مسروق بن اَجدع رحمہ اللہ (متوفیٰ63ھ)فرماتے ہیں:
’’جالست أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوجدتّهم كالإخاذ فالإخاذ يروي الرّجل، والإخاذ يروي الرّجلين، والإخاذ يروي العشرة، والإخاذ يروي المائة، والإخاذ لو نزل به أهل الأرض لأصدرهم. ‘‘[4]
’’ مجھے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے۔ صحابہ کرام ایک تالاب کی مانند تھے۔ تالاب سے ایک آدمی بھی سیر ہو سکتا ہے، دو بھی، دس بھی اور سو بھی۔ بعض تالاب ایسے ہوتے ہیں کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگ پانی پینے آئیں تو سیر ہو کر جائیں۔‘‘
ابن قتیبہ رحمہ اللہ (متوفیٰ276ھ)فرماتے ہیں:
’’إن العرب لا تستوي في المعرفة بجميع ما في القرآن من الغريب والمتشابه، بل إن بعضها يفضل
[1] البُرهان في عُلوم القُرآن: 1 /293
[2] سورة عبس: 80 : 31
[3] السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر، الإتقان في علوم القرآن: 2/113، الهيئة المصرية العامة لكتاب، مصر، الطبعة الأولى، 1974م
[4] ابن سعد، أبو عبد اللهّٰ محمد بن سعد، الطبقات الكبرى:2/261، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1990م