کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 38
’’ اس كا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ ہم جب اسے جبریل کے ذریعے آپ پر پڑھ لیں تو اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ۔ پھر اس کا واضح کر دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری لگائی کہ قرآنِ کریم کے مشکل مقامات کو لوگوں کے سامنے واضح کریں۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ﴾ [1] ’’ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اُتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شائد کہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی قرآنِ کریم کے ظاہری احکام ومسائل کو سمجھتے تھے، جہاں تک ان کے قرآنِ کریم کو تفصیلاً سمجھنے اور اس کے باطنی اسرار وحکم کو معلوم کرنے کا تعلّق ہے تو یہ صرف زبان دانی کے بل بوتے پر ممکن نہ تھا۔ اس ضمن میں عربی دانی کے ساتھ بحث ونظر اور مشکلاتِ قرآن کا حل معلوم کرنے کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع بھی ضروری تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب صحابہ کرام قرآن فہمی میں برابر نہ تھے۔ بعض صحابہ کیلئے جو چیز پیچیدہ تھی، دوسروں کیلئے نہایت آسان تھی۔ اس کی وجہ عقل میں فرقِ مراتب اور قرآنِ حکیم کے احوال وظروف کا تعدّد وتنوع ہے۔ بلکہ مفردات جن معانی کے لئے موضوع ہوتے ہیں، صحابہ کرام ان کے فہم وادراک میں بھی یکساں مرتبہ کے حامل نہ تھے۔ اور اس میں حرج بھی نہیں، کیونکہ کسی شخص نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ اُمت کا ہر فرد اپنی زبان کے تمام مفردات سے واقف ہے۔ سیدنا عمر سے مروی ہے کہ آپ نے منبر پر یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: ﴿ اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰى تَخَوُّفٍ﴾ پھر پوچھنے لگے کہ ’تخوف‘ کا معنیٰ کیا ہے؟ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے کہا کہ ہماری زبان میں اس کے معنیٰ ’’تنقّص‘‘(آہستہ آہستہ کمی کرنے) کے ہیں۔ پھر اس نے یہ شعر پڑھا: ؏ تخوَّف الرحل منها تامكًا قَرِدًا كما تخوَّف عودَ النبعة السفِنُ تو اس موقعہ پر سيدنا عمر نے اپنا مشہور مقولہ کہا: ’’أيها النّاسُ! تمسّكوا بديوان شعركم في جاهليّتكم، فإنّ فيه تفسير كتابكم. ‘‘[2] ’’ اے لوگو! اپنے جاہلی شعری دیوان کو لازم پکڑو، کیونکہ اس میں تمہیں کتاب اللہ کی تفسیر ملے گی۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ’’میں ﴿ فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾کے معنیٰ سے واقف نہ تھا کہ دو دیہاتی میرے پاس آئے، وہ ایک کنویں کے
[1] سورة النّحل: 16: 44 [2] الشاطبي، إبراهيم بن موسى، الموافقات للشاطبي: 2/88، دار ابن عفان، الطبعة الأولى، 1997م