کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 37
قرآنِ كريم جس قوم پر نازل کیا گیا وہ قوم اُمی تھی جو نہ لکھ پڑھ سکتی تھی اور نہ حساب وکتاب کرسکتی تھی لیکن وہ قلب وزبان سے محروم نہ تھی۔ ان کے ہاں شعر وشاعری اور ضرب الامثال منتشر تھے جو در اصل ان کے تجرباتِ زندگی کا نچوڑ تھے،ان کے اسالیبِ کلام متنوّع ہوا کرتے تھے۔ ان کا اندازِ تکلّم اور طرزِ تخاطب تنوع وتفنّن کی وجہ سے اسرار وحکم سے بھرپور ہوا کرتا تھا، جس میں حقیقت ومجاز، تشبیہ واستعارہ، تصریح وکنایہ اور ایجاز واطناب سب انواعِ سخن شامل تھے۔ اپنی زبان دانی پر انہیں اتنا فخر تھا کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو، خواہ وہ تہذیب وتمدّن کے اعتبار سے ان پر کتنی ہی فائق اور اس دَور کی سپر پاور ہی کیوں نہ ہوں ، عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔ اور ان کا یہ فخر بے جا بھی نہ تھا، واقعی ہی وہ اپنی زبان کی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے دیگر تمام قوموں پر ہر لحاظ سے حاوی تھے ، جس کی صرف یہی ایک دلیل کافی ہے کہ قرآن کریم اس دَور کی عربی زبان کے مطابق اُترا۔ اور سنتِ الٰہی بھی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وحی انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کی زبان میں اُترتی ہے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزۂ قرآنی بھی باقی انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کی طرح اپنی قوم کے بالکل حسبِ حال تھا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴾ [1] ’’ ہم نے جو رسول بھی بھیجا ، اس کی قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ ان کے لئے اچھی طرح (ہر بات) واضح کر دے۔‘‘ چنانچہ قرآن کریم کے تمام الفاظ عربی کے ہیں، سوائے چند الفاظ کے، جن کے بارے میں ایک قوم کا خیال ہے کہ وہ بھی اصلاً خالص عربی کے الفاظ ہیں، لیکن دوسری زبانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں، جبکہ بعض کا خیال ہے کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر وہ اصلاً عربی کے الفاظ نہ ہوں لیکن عرب بھی انہیں استعمال کرتے ہوں تو انہیں بہرحال عربی الفاظ ہی کہا جائے گا ۔ قرآن کریم چونکہ اس دَور کے محاورۂ عربی میں ہے، لہٰذا اس میں بھی تمام عربی انداز واسالیب مثلاً حقیقت ومجاز، تصریح وکنایہ اور ایجاز واطناب سب موجود ہیں ۔ البتہ قرآن پاک اپنی معجزانہ خصوصیات کی بناء پر دیگر تمام عربی کلاموں پر فائق ہے۔ اور کیوں نہ ہو ، یہ تو ربّ العٰلمین کا کلام ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو اجمالاً وتفصیلاً سمجھتے تھے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں قرآن کو محفوظ کرنے اور اس کے مطالب سمجھانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی تھی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَه٭ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَه٭ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه﴾ [2]
[1] سورة إبراهيم: 14: 4 [2] سورة القيامة: 75: 17-19