کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 36
بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾ [1] میں ﴿ وَ اَرْجُلَكُمْ ﴾ اور ﴿ وَ اَرْجُلِكُمْ ﴾ دو متواتر قراءتیں ہیں اور دونوں کا معنیٰ مختلف ہے، لہٰذا تفسیر میں بھی فرق ہوگا، اسی طرح ﴿ فَمَنْ يُّجَادِلُ اللّٰهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَمْ مَّنْ يَّكُوْنُ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا﴾ [2] اور ﴿ اَفَمَنْ يَّمْشِيْ مُكِبًّا عَلٰى وَجْهِهٖ اَهْدٰى اَمَّنْ يَّمْشِيْ سَوِيًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ﴾ [3] میں ﴿أَمْ مَّنْ﴾ مفصولہ ’بلکہ ‘ کے معنیٰ میں ہے جبکہ ﴿ اَمَّنْ ﴾ موصولہ کا معنیٰ مختلف ہے، اور یہ معانی کا فرق اختلافِ رسم کی وجہ سے ہے۔ وقف کی وجہ سے تبدیلی معنیٰ کی مثال ﴿ وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗ اِلَّا اللّٰهُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِه كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ [4]ہے۔ ﴿ اِلَّا اللّٰهُ﴾ پر وقف کرنے سے معنیٰ یہ بنتا ہےکہ متشابہات کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر یہاں وقف نہ کیا جائے تو معنیٰ یہ ہے کہ متشابہات کا معنیٰ راسخ العلم علماء بھی جانتے ہیں۔یہ دونوں کلمات کی علیحدہ علیحدہ تعریف ہے،اگر ان دونوں کو ملایا جائے تو ’اصولِ تفسیر‘ مرکبِ اضافی ہے ، جس کا معنیٰ ہے ’قرآن کریم کے علوم ومعارف کے حصول کے بنیادی قوانین‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ728ھ)فرماتے ہیں:
’’مجموعة القواعد التي ینبغي أن یسیر عليها المفسّرون في فهم المعاني القرآنية وتعرف العبر والأحکام من الآیات. ‘‘[5]
’’ اصولِ تفسیر ان قواعد کے مجموعے کا نام ہے جن کا لحاظ رکھنا مفسرین کے لئے معانی قرآن کے فہم اور آیات سے مستنبط حِکم واحکام کی پہچان کے لئے نہایت ضروری ہے۔‘‘
تاریخ اُصولِ تفسیر
قرآن پاک کے نزول کا بنیادی مقصد اس کی آیات کی تلاوت اور احکام میں غور وفکر اور ان سے نصیحت حاصل کرنا ہے، لیکن اگر یہ ہی واضح نہ ہو کہ قرآنِ کریم کے احکام میں تدبّر کیسے کرنا ہے؟ وہ کیا اُصول وضوابط ہیں جن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں غور وفکر کیاجائے؟ تو یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اُصول تفسیر کی تدوین اگرچہ بعد میں ہوئی ہے،لیکن ان کی تاریخ لا محالہ اسی وقت سے شروع ہوتی ہے، جب سے قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔
[1] سورة المائدة:5: 6
[2] سورة النّسآء:4: 109
[3] سورة الملك:67: 22
[4] سورة آل عمران:3: 7
[5] ابن تيمية، أحمد عبد الحليم، مقدّمة في أصول التفسیر: ص3، دار مكتبة الحياة، بيروت، الطبعة الأولى، 1980م