کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 34
جن سے احکام نکالے جاتے ہوں۔ [1]یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اصل‘ وہ ہے جو خود بنفسہٖ قائم ہو اور دوسری چیزوں کی بناء اس پر ہو۔ [2]
’تفسیر‘ سے مراد
’تفسیر‘ بابِ تفعیل کا مصدر ہے، اس كے حروفِ اصلی (ف، س، ر) ہیں۔ عربی زبان میں ’فسر‘کھولنے، بیان کرنے اور واضح کرنے کے معنیٰ میں آتا ہے۔ بازو کھولنے کے لئے عربی میں ’’فَسَرْتُ الذّرِاعَ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’فَسَّرْتُ الْحَدِيثَ‘‘ كا معنیٰ ہے ’میں نے بات کو واضح کیا‘۔ مجرد سےیہ بابِ ’’ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘اور ’’نَصَرَ یَنْصُرُ‘‘ دونوں کے وزن پر آتا ہے۔ ’’فسر‘‘ کا معنیٰ بے حجاب کرنا بھی ہے، تفسیر کرتے وقت بھی مشکل لفظ کے معنیٰ ومفہوم کو گویا بے حجاب کیا جاتا ہے۔ [3]
اصطلاحی طور پر تفسیر سے مراد ’قرآنِ کریم کے معانی کا فہم اور اس کے احکام کا علم‘ ہے۔
امام جرجانی رحمہ اللہ (متوفیٰ816ھ)نے علم تفسیر کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’هوتوضيح معنى الآية وشأنها وقصّتها والسّبب الذي نزلت فيه بلفظ يدل عليه دلالة ظاهرة. ‘‘[4]
’’ اس (تفسیر) سے مراد کسی آیتِ کریمہ کے معنیٰ، قصہ اور سببِ نزول کی وضاحت ایسے الفاظ سے کرنا ہے جو اس پر ظاہری طور پر دلالت کرتے ہوں۔‘‘
امام ابوحیان رحمہ اللہ (متوفیٰ745ھ) فرماتے ہیں:
’’هو علم یَبحث عن كيفية النُّطق بألفاظ القرآن، ومدلولاتها، وأحکامها الإفرادية والترکیبية، ومعانيها التي تحمل عليها حالة الترکیب، وتتمّات لذلك. ‘‘[5]
’’ تفسیر وہ علم ہے کہ جس کے ذریعے قرآنی الفاظ كا تلفظ، ان کے مفاہیم ،ان کے افرادی وترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جن پر ترکیبی حالت استوار ہوتی ہے اور ان کے متعلق دیگر تکمیلی علوم پر غور کیا جاتا ہے ۔‘‘
[1] كيرانوی، وحيد الزمان، مولانا، القاموس الوحيد: ص126، اداره اسلاميات، لاہور، اشاعت اول، 2001م
[2] الجرجاني، علي بن محمد، كتاب التّعريفات: ص22، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1983م
[3] ابن منظور، جمال الدين، محمد بن مكرم، الأفريقي، لسان العرب لابن منظور: 2/361، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1955م
[4] التّعریفات: ص55
[5] الأندلسي، أبو حيان، محمد بن يوسف، البحر المحيط: ص13، دار الفكر، بيروت، الطبعة الأولى، 1420ھ