کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 32
توافر هذه الأوصاف حسناً غیر أنه لیس شرطاً في حقیقه الاجتهاد الجماعی. 4۔إن واقع الاجتهاد الجماعی المعاصر من خلال المجامع المفقهیة وهیئات الإفتاء وما شابه ذلك یشهد بأن هذا الاجتهاد لا یقتصر على الأحکام والمسائل الفقهیة وإنما یتجاوز ذلك إلى بعض القضایا والوقائع غیر الفقهیة کمسائل العقائد وأصول الدین من مثل الحکم علی بعض الفرق کالقادیانیة والبهائیة. ‘‘[1] ’’1۔اجتماعی اجتہاد علماء کی ہر اس تعداد سے حاصل ہو جاتا ہے ، جس پر جماعت یا مجمع کا اطلاق ہوتا ہو...لیکن جس قدر تعداد زیادہ ہو گی، اجتماعی اجتہاد کا فائدہ اور اطمینان بھی اس قدر بڑھ کر ہو گا۔2۔یہ مجتہدین،اجتہاد کے وقت مجتمع ہوں، جسے بعض محققین باہمی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔ عصر حاضر کے مزاج کے ساتھ یکسانیت اور اس کے وسائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتماع کا معنیٰ طے کیا جائے گا یعنی کسی ایک جگہ میں مجتہدین کا حقیقی اجتماع ہو یاحکمی ہو جیسا کہ ٹیلی فون، ٹیلی فونک ذرائع یا انٹر نیٹ وغیرہ جیسے وسائل ربط و تعلق کے ذریعہ باہمی ملاپ اور اجتماع کو ممکن بنایا جائے۔3۔مجتہدین کے اجتماع کا بنیادی ہدف و مقصود کسی بھی شرعی حکم کی تلاش ہو، چاہے وہ کوئی خاص مسئلہ ہو یا عمومی نوعیت کا ہو۔ یہ بھی شرط نہیں ہے کہ یہ اجتہاد کسی ادارے یا اکیڈمی کے تحت ہی منعقد ہو جیسا کہ اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ اس کوسرکاری سرپرستی حاصل ہو۔ اگرچہ ان اوصاف کا پایا جاناایک اچھی علامت ہے، لیکن اجتماعی اجتہاد کی بنیادی شرائط میں سے نہیں ہے۔4۔معاصر فقہی اکیڈمیوں اور اجماعی افتاء کے اداروں میں واقع شدہ اجتماعی اجتہاد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اجتہاد صرف احکام شرعیہ اور فقہی مسائل میں محصور نہیں ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بعض غیر فقہی مسائل مثلاً عقائداور اصول دین کے مسائل میں بھی ہوتا ہے، جیسا کہ قادیانیوں یا بہائیہ کے بعض فرقوں پرشرعی حکم لاگو کرنا۔‘‘ خلاصہ بحث اجتماعی اجتہاد کی جتنی بھی تعریفات بیان کی گئی ہیں، ان میں ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید کی بیان کردہ تعریف، جامع ترین تعریف معلوم ہوتی ہے۔ یہ تعریف جامع ہونے کے ساتھ مختصر بھی ہے۔ اس تعریف کے الفاظ یہ ہیں: ’’بذل جمع من الفقهاء وسعهم مجتمعین لتحصیل حکم شرعی‘‘۔ یعنی اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی ایک جماعت کا کسی حکم شرعی کی تحصیل کے لیے اجتماعی طور پر اپنی کوششیں صرف کرنا ہے۔ لیکن اس تعریف میں اگر تحصیل حکم کے ساتھ تطبیق حکم کا لفظ بھی شامل کر دیا جائےتو یہ جامع مانع بن جاتی ہے۔ پس عبارتاگر یوں ہو: ’’بذل جمع من الفقهاء وسعهم مجتمعین لتحصیل أو تطبیق حکم شرعی ‘‘ یعنی اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی ایک جماعت کا کسی حکم شرعی کی تحصیل یا اس کی تطبیق کے لیے اجتماعی طور پر اپنی کوششیں صرف کرنا ہے، تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر:ص16۔17