کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 31
کر چکا ہوں یہ ہو گی کہ فقہاء کی ایک جماعت کا’علم اصول فقہ‘ کے منہج کے مطابق اپنی کوششوں کو تحقیق و باہمی مشاورت میں صَرف کرناتاکہ کوئی شرعی حکم مستنبط کیا جا سکے یا اس کی تطبیق ہو، چاہے وہ شرعی حکم عقلی ہو یا نقلی، قطعی ہو یا ظنی۔‘‘
یہ ایک جامع تعریف ہے، لیکن اس میں فقہاء یامجتہدین کا لفظ شامل نہیں کیا گیا ہے۔ہمارے خیال میں اگر وہ شامل کر لیا جاتاتو بہتر تھا۔
دسویں تعریف
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیداجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفوں پر نقد کرنے کے بعد ایک ممکنہ تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ بعد استعراض ما أورده بعض العلماء المعاصرین الأفاضل من تعریفات للاجتهاد الجماعی أخلص إلى التعریف الذی یبدو أقرب إلى بیان حقیقة الاجتهاد الجماعی وعلیه فیمکن القول: إن الاجتهاد الجماعی هو: بذل جمع من الفقهاء وسعهم مجتمعین لتحصیل حکم شرعی. ‘‘[1]
’’معاصر فاضل علماء نے اجتماعی اجتہا دکی جو تعریفیں بیان کی ہی، ان کو نقل کرنے کے بعدمیں اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف بیان کروں گا جو میرے خیال میں اجتماعی اجتہاد کے تصور و حقیقت کو بخوبی واضح کر رہی ہے۔ پس اس تعریف کے مطابق اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی ایک جماعت کا کسی حکم شرعی کی تحصیل کے لیے اجتماعی طور پر اپنی کوششیں صرف کرنا ہے۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی یہ آخری اور دسویں تعریف سب سے جامع تعریف معلوم ہوتی ہے کہ جس میں اختصار بھی ہے۔لیکن اس تعریف میں اگر تحصیل حکم کے ساتھ تطبیق حکم کا لفظ بھی شامل کر دیا جاتا تو یہ جامع مانع بن جاتی یعنی عبارت یوں ہوتی: ’’بذل جمع من الفقهاء وسعهم مجتمعین لتحصیل أو تطبیق حکم شرعی.‘‘
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیداس تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ 1۔ إن الاجتهاد الجماعي یحصل بأى عدد یصدق علیه أنه جمع أو جماعة ... وکلما کثر العدد کانت الفائدة أعظم وحصول الاطمئنان أکبر. 2۔ أن یکون هؤلاء المجتهدون مجتمعین حین الاجتهاد وهو ما یعبر عنه البعض ب (التشاور) وانسجاماً مع طبیعة هذا العصر وآلیاته فیقصد بالاجتماع ما کان حقیقة في مکان واحد وما کان حکماً کالاتصال عبر الهاتف أو الدوائر التلفزیونیة أوشبکة المعلومات أو غیرها من وسائل الاتصال والتواصل مما یتحقق معه الاجتماع. 3۔یهدف الاجتماع إلى تحصیل حکم شرعی سواء کان ذلك متعلقاً بقضیة عامة أو خاصة ولا یشترط أن یتم ذلك من خلال هیئة أو مجمع،کما لایشترط فیه أن یکون ذا صفة رسمیة وإن کان
[1] الاجتهاد الجماعی وأهميته في نوازل العصر: ص16