کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 30
’’ بعد أن أنعمت النظر في مزایا التعریفات السابقة وفي عیوبها، اقترح التعریف الآتي للاجتهاد الجماعي، الذی أری أنه تعریف جامع مانع، فأقول: هو بذل فئة من الفقهاء المسلمین العدول جهودهم، في البحث وا لنظر على وفق منهج علمی أصولي، ثم التشاور بینهم في مجلس خاص، لاستنباط أو استخلاص حکم شرعی، لمسألة شرعیة ظنیة.ثم اختصر هذا التعریف بالاکتفاء بالقیود دون الضوابط وعلیه، یصبح حد الاجتهاد الجماعی هو، بذل فئة من الفقهاء جهودهم، في البحث والتشاور لاستنباط حکم شرعي، لمسألة ظنیة. ‘‘[1] ’’اجتماعی اجتہاد کی سابقہ تعریفوں کی خصوصیات اور عیوب پر گہری نظر ڈالنے کے بعدمیں اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف پیش کرتا ہوں جو میرے خیال میں جامع مانع تعریف ہے۔پس میں یہ کہتا ہوں: اجتماعی اجتہاد سے مرادعادل و مسلمان فقہاء کی ایک جماعت کاعلم اصول فقہ کے منہج کے مطابق غور و فکر کرتے ہوئے اپنی کوششیں صرف کرنا پھرکسی خاص مجلس میں باہم مشورہ کرنا تاکہ کسی شرعی ظنی مسئلے کا حکمِ شرعی دریافت یا مستنبط کیا جا سکے۔پھر اسی تعریف کواس طرح مختصر کیا گیا ہے کہ اس کی قیود تو بیان ہو جائیں لیکن ضوابط بیان نہ ہوں۔پس اس اختصار کے ساتھ اجتماعی اجتہاد کی تعریف یوں ہو گی: فقہاء کی ایک جماعت کا کسی ظنی مسئلے سے متعلق حکم شرعی دریافت کرنے کے لیے تحقیق و باہمی مشاورت میں اپنی کوششیں صرف کرنا۔‘‘ اس تعریف پر یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ اس میں شرعی احکام کے استنباط کا تذکرہ تو ہے لیکن ان کی تطبیق کا ذکر نہیں ہے،حالانکہ دونوں ہی اجتہاد ہیں۔ نویں تعریف شیخ نصر محمودالکرنزاجتماعی اجتہاد کی تعاریف کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ بعد أن أنعمت النظر في مزایا التعریفات السابقة وفي عیوبها، وبعد استفادتي من تعریفی سانو والخالد، أصل إلى التعریف المختار الذی أرتضیه للاجتهاد الجماعی الذی یتناسب مع التعریف الذی اخترته للاجتهاد العام أوالفردی فیصبح التعریف المقترح هو: بذل فئة جهودهم في البحث والتشاور على وفق منهج علمي أصولي لتحصیل استنباط أوتطبیق حکم شرعی عقلیاً کان أونقلیاً قطعیاًکان أوظنیاً. ‘‘[2] ’’اجتماعی اجتہاد کی سابقہ تعریفوں کی خصوصیات اور عیوب پر غورکرنے اور ڈاکٹر خالد اور محمد قطب سانو کی تعریفوں سے استفادے کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ اجتماعی اجتہاد کی وہ تعریف جسے میں پسند کرتا ہوں اور بطور تجویز پیش کرتا ہوں اور وہ انفرادی اجتہاد کی اس تعریف سے بھی قریب تر ہے ، جس کا میں تذکرہ
[1] الاجتهاد الجماعی وتطبيقاته المعاصرة: ص 37 [2] أيضاً: ص37