کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 29
’’بذل الوسع العلمی المنهجی المنضبط، الذی یقوم به مجموع الأفراد الحائزین على رتبة الاجتهاد، في عصر من العصور، من أجل الوصول إلى مراد اللّٰہ في قضیة ذات طابع عام تمس حیاة أهل قطر أو إقلیم أو عموم الأمة، أو من أجل التوصیل إلى حسن تنزیل لمراد اﷲ في تلك القضیة ذات الطابع العام على واقع المجتمعات والأقالیم والأمة. ‘‘[1] ’’کسی بھی زمانے میں کسی ایسے مسئلے میں، جو عمومی نوعیت کا ہو اور کسی علاقے، ریاست یا ساری امت سے متعلق ہو، اللہ کی مراد و منشا تک پہنچنے کے لیے، افراد کی ایک ایسی جماعت، جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو چکی ہو، کا خاص منہج کے مطابق علمی اور منضبط کوششیں صرف کرنا، اجتماعی اجتہادہے۔‘‘ اس تعریف پر یہ اشکال وارد کیا گیا ہے کہ اس میں اللہ کی مراد تک پہنچنے کے الفاظ درست نہیں ہیں کیونکہ اجتہاد میں بعض اوقات مجتہد ، اللہ کی مراد تک پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات نہیں پہنچ پاتا۔علاوہ ازیں مجتہد کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہوتا کہ وہ قطعی طور پر یہ معلوم کر سکے کہ اس مسئلے میں اس نے اللہ کی مراد پا لی ہے۔ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیدلکھتے ہیں: ’’عبارة: (الوصول إلى مراد اﷲ) هذا الوصف محل نظر إذ مایتوصل إلیه المجتهدون هو رأیهم، وإن کان معتبراً إلا أننا لا نجزم بأنه هو مراد اﷲ. ‘‘[2] ’’اللہ کی مراد تک پہنچنے کے الفاظ کی قید محل نظر ہے، کیونکہ جس تک مجتہدین پہنچتے ہیں وہ ان کی رائے ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ رائے معتبر ہوتی ہے، لیکن اس کے بارے میں ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہتے کہ یہی اللہ کی مراد ہے۔‘‘ اس تعریف پر ایک اعتراض یہ بھی وارد کیا گیا ہے کہ اس میں اختصار و ایجاز نہیں ہے۔عبارت کو خواہ مخواہ طول دیا گیا ہے۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیدلکھتے ہیں: ’’قوله في التعریف (مجموعة الأفراد الحائزین على رتبة الاجتهاد) إذ یغنی عن ذلك قول (المجتهد) أو (المجتهدین). ‘‘[3] ’’افراد کی ایک ایسی جماعت جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو، کے الفاظ کی جگہ مجتہد یا مجتہدین کی ایک جماعت کے الفاظ کفایت کرتے تھے۔‘‘ آٹھویں تعریف ڈاکٹرخالدحسین الخالداجتماعی اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[1] نصر محمود الكرنز، الاجتهاد الجماعی وتطبیقاته المعاصرة: ص36، الجامعة الإسلامية، غزة [2] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر: ص16 [3] أيضاً:ص 16