کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 28
’’عبارة (ینظمها ولي الأمر في دولة إسلامیة) هذان القیدان محل نظر إذ لیس تنظیم ولي الأمر شرطاً في تحقق الاجتهاد الجماعي من حیث المصدق أما من حیث الإلزام فذاك شأن آخر وهو خارج عن ماهیة الاجتهاد الجماعی وحقیقته وکذلك الأمر بالنسبة لاشتراط کون الاجتهاد الجماعي في دولة إسلامیة فهو غیر مسلم إذ لو اجتمع الفقهاء في دولة غیر إسلامیة أو دولة ذات أقلیة مسلمة لصح وصدق على ذلك أنه اجتهاد جماعی. ‘‘[1]
’’اسلامی ریاست اور امیر المؤمنین کی زیر سر پرستی کی قیود بھی محل نظر ہیں، کیونکہ تصدیق کے پہلو سے اجتماعی اجتہاد کے ثبوت کے لیے امیر المؤمنین کے انتظام کی شرط لگانادرست نہیں ہے ۔جہاں تک اجتماعی اجتہاد کی تنفیذ کا معاملہ ہے تو اس میں یہ شرط لگائی جا سکتی ہے، لیکن اجتماعی اجتہاد کی تنفیذ اس کی ماہیت و حقیقت سے خارج کی بحث ہے۔اسی طرح اجتماعی اجتہاد کی نسبت یہ کہنا کہ وہ کسی اسلامی مملکت میں ہی ہوتو اجتماعی اجتہاد ہے، درست نہیں ہے۔اگر کسی غیر اسلامی یا مسلم اقلیت والی ریاست میں بھی علماء اجتماعی اجتہاد کرتے ہیں تو وہ صحیح ہو گا اور اس پر اجتماعی اجتہاد کے لفظ کا اطلاق درست ہو گا۔‘‘
’قطعی الثبوت‘ اور ’قطعی الدلالۃ‘ نص وارد نہ ہونے کی شرط لگانا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اجتہاد کی تین قسمیں ہیں۔’تخریج المناط‘، ’ تنقیح المناط‘ اور ’تحقیق المناط‘۔یہ شرط لگانے سے اجتہاد صرف تیسری قسم کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے۔اجتہاد کی پہلی دو قسمیں حکم شرعی سے علت نکالنے کے باب میں ہیں جبکہ آخری قسم اس علت کو کسی دوسری شئے میں ثابت کرنے کے بارے میں ہے۔پس علت کا نکالنا اور اس کا اثبات یہ دونوں ہی اجتہاد کی قسمیں ہیں اور علت تو ’قطعی الثبوت‘ اور ’قطعی الدلالۃ‘ نصوص سے بھی نکالی جاتی ہے۔
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ عبارة: (لم یرد به نص قطعي الثبوت أو الدلالة) هذا الوصف محل نظر إذ أنه یستلزم اخراج الاجتهاد في تحقیق المناط وهو ضرب من أضرب الاجتهاد المعتبرة. ‘‘[2]
’’ ’قطعی الثبوت‘ اور ’قطعی الدلالۃ‘ نص وارد نہ ہونے کی شرط لگا دینا محل نظر ہےکیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ پھر یہ اجتماعی اجتہاد صرف ’تحقیق مناط‘ ہی کے میدان میں ہوگا اور یہ اجتہاد کی قسموں میں سے ایک قسم ہے نہ کہ کل اجتہاد۔‘‘
ساتویں تعریف
ڈاکٹر محمد مصطفی قطب سانو حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر: ص 15
[2] أيضاً: ص 14