کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 27
چھٹی تعریف
’’ندوة الاجتهاد الجماعی في العالم الإسلامي‘‘کے علماء نے ’جامعة العین‘ متحدہ عرب أمارات، ’’کلیة الشريعة ‘‘ کے تحت منعقدہ اجلاس 1996ء میں اجتماعی اجتہاد کی درج ذیل تعریف بیان کی ہے:
’’ تقرر الندوة أن الاجتهاد الجماعی: هو اتفاق أغلبیة المجتهدین، في نطاق مجمع فقهی أو هيئة أو مؤسسة شرعیة، ینظمها ولي الأمر في دولة إسلامیة على حکم شرعی عملی، لم یرد به نص قطعی الثبوت والدلالة، بعد بذل غایة الجهد فیما بینهم في البحث والتشاور. ‘‘[1]
’’اجتماعی اجتہاد کی مجلس یہ طے کرتی ہے کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد کسی ایسی فقہی اکیڈمی، انجمن یا شرعی ادارے کے تحت، جس کی دیکھ بھال اسلامی ریاست میں امیر المؤمنین کر رہے ہوں، علماء کی اکثریت کا باہمی مشاورت و مباحثے میں غایت درجے کی کوشش کرتے ہوئے کسی ایسے مسئلے میں شرعی عملی حکم پر اتفاق کرلینا ہے کہ جس میں ’قطعی الثبوت‘ اور ’قطعی الدلالۃ‘ نص وارد نہ ہوئی ہو۔‘‘
اس تعریف میں بھی مجتہد ین کے اتفاق اور ان کی اکثریت کی قیود اضافی ہیں۔اسی طرح فقہی اکیڈمی یا ادارے کے تحت ہی اجتماعی اجتہاد کی شرط بھی ایک اضافی وصف ہے۔
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید لکھتے ہیں:
’’عبارة: (في نطاق مجمع أو هيئة أو مؤسسة) فهذا القید لیس شرطاً في انعقاد الاجتهاد الجماعی وصحته وعلیه فلو اجتمع جمع من الفقهاء غیر المنتسبین لمجمع أو هيئة أو مؤسسة لصدق على اجتماعهم واجتهادهم أنه اجتهاد جماعی. ‘‘[2]
’’کسی فقہی اکیڈمی،انجمن یا شرعی ادارے کے تحت کے الفاظ، اجتماعی اجتہاد کے انعقاد یا اس کی صحت کے لیے کسی شرط کی حیثیت نہیں رکھتے ۔اسی لیے اگرکسی اکیڈمی، انجمن یا ادارے سے غیر منسوب فقہاء کی ایک جماعت جمع ہو تو ان کے اس اجتماع اور اجتہاد کو بھی اجتماعی اجتہادہی کہیں گے۔‘‘
علاوہ ازیں اس تعریف میں مترادفات کی کثرت ہے مثلاًایک ہی معنیٰ ادا کرنے کے لیے مجمع، هيئة اور مؤسسة کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔کسی اصطلاحی تعریف میں ایجاز کا پہلو مدنظر رہناچاہیے، کیونکہ مختصر الفاظ میں کسی تصور کی جمیع بنیادی جہات کو جمع کر دینا ہی تعریف کا اصل جوہرہوتا ہے۔علاوہ ازیں اس تعریف میں امیر المؤمنین اور اسلامی ریاست کی قیود بھی اضافی اوصاف ہیں۔
ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیدلکھتے ہیں:
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر:ص 14
[2] أیضاً: ص15