کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 26
فقہی اکیڈمیوں میں غالب اور عام ہے۔‘‘ اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید ایک اضافی قید ہے۔اسی طرح اکثریت کی قید لگانا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اس کا پورا ہونا ایک مشکل أمر ہے جیسا کہ ہم سابقہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں۔ پانچویں تعریف ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اجتماعی اجتہاد کے عمل کو درج الفاظ کے ذریعے بیان کیا ہے: ’’ینبغی في القضایاة الجدیدة أن ننتقل من الاجتهاد الفردی إلى الاجتهاد الجماعی وهو الذی یتشاور فیه أھل العلم في القضایا المطروحة، وخصوصاً فیما یکون له طابع العموم ویهم جمهور الناس. ‘‘[1] ’’جدید مسائل میں ہمیں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کے منہج کو اختیار کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل و واقعات میں اہل علم کی ایک جماعت باہمی مشاورت کرتی ہے ، خاص طور پر ان مسائل میں جو عمومی نوعیت کے ہوں اورعوام الناس کی اکثریت ان سے پریشان ہو۔‘‘ اجتماعی اجتہاد کی یہی تعریف ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل نے بھی کی ہے۔ [2] اس تعریف میں عمومی نوعیت کے مسائل کی قید ایک اضافی قید ہے۔ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیدلکھتے ہیں: ’’عبارة: (طابع العموم) (ویهم جمهور الناس) و(ذات طابع عام) فهذه القیود عند التحقیق غیر لازمة فلو أن الاجتهاد الجماعی جری في مسألة خاصة أو ذات طابع خاص لصدق علیه أنه اجتهاد جماعی. ‘‘[3] ’’عمومی نوعیت، یا عوام الناس کی اکثریت جن سے پریشان ہو وغیرہ جیسی قیود، غیر لازمی اوصاف ہیں کیونکہ اگر اجتماعی اجتہاد کسی خاص مسئلے میں جاری ہو جاتا ہے یا خاص نوعیت کے مسائل کے تحت ہوتا ہے تو پھر بھی اس کو اجتماعی اجتہاد ہی کہیں گے۔‘‘
[1] القرضاوي، يوسف، الدكتور، الاجتهاد في الشریعة الإسلامیة: ص182، دار القلم، كويت، الطبعة الأولى، 1996م [2] شعبان، محمد إسماعيل، الدكتور، الاجتهاد الجماعی ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص21، جامعة القاهرة، دار البشائر الإسلامية، بيروت، الطبعة الأولى، 1418ھ [3] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر:ص 14