کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 25
کے منتظمین کسی مسئلے پر علمی سیمینار یا مجلس کا انعقاد کرتے ہیں اور بقیہ مدارس کے علماء کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔جیسا کہ کچھ ہی عرصہ پہلے جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی میں دیوبند کے علماء کی ایک جماعت نے اسلامی بینکاری کے ناجائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا۔علاوہ ازیں علماء کی باہمی مراسلت یا تحریری مکالمے و مباحثے کے ذریعے بھی کسی ایک رائے یا نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ اس وقت اجتماعی اجتہاد کے نام پر جو کام ہو رہا ہے ، وہ اکثر وبیشتر تحقیقی و علمی اداروں کے تحت ہی ہو رہا ہے ۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی دوسری ممکنہ تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أو اتفاق أکثریة الحاضرین على رأی معین في ضوء مصادر الشریعة ومقاصدها وقواعدها ومبادءها لاختیار ما یحقق المصلحة الزمنیة. ‘‘[1]
’’یا کسی مجلس میں موجود علماء کی اکثریت نے مصادر ، مقاصد اور قواعد اور مبادی شریعت کی روشنی میں کسی ایسی معین رائے پر اتفاق کر لیا جو زمانی مصلحتوں کو بھی پورا کرنے والی ہو۔‘‘
اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید محل نظر ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ ایک تیسری ممکنہ تعریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أو هو اتفاق أکثر مجتهد على حکم شرعی بعد بذلهم غایة وسعهم في استنباطه من أدلته. ‘‘[2]
’’یا اجتماعی اجتہاد سے مراد اکثر مجتہدین کا، کسی مسئلے کے شرعی حکم کو اس کے دلائل شرعیہ سے مستنبط کرنے کے لیے، اپنی کوششیں انتہائی درجے میں کھپا تے ہوئے اس کے حکم پر اتفاق کر لیناہے۔‘‘
اس تعریف میں بھی ’علماء کے اتفاق‘ کی قید اضافی ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی ایک اور تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ویطلق الآن على اتفاق أکثر من فقیه أو باحث متخصص في الفقه وإن لم یبلغ مرتبة الاجتهاد بعد بذلهم غایة وسعهم في استنباط حکم شرعي من أدلته وهذا هو الغالب الشائع في المجامع الفقهیة المعاصرة. ‘‘[3]
’’آج کل کے زمانے میں اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء یا علم فقہ میں تخصص و تحقیق کرنے والے طلباء ، جو ابھی درجہ اجتہاد کو نہ پہنچے ہوں، کا کسی مسئلے کا شرعی حکم أدلہ شرعیہ سے أخذ کرتے ہوئے اپنی محنتوں کو انتہائی درجے میں کھپا دینا اور پھر ان کی اکثریت کا اس مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق کرلینا ہے اور اجتماعی اجتہاد کایہی معنیٰ معاصر
[1] الزحيلي، وهبة، الدكتور، الاجتهاد الجماعی وأهمیته في مواجهة مشکلات العصر:ص6۔7، المجمع الفقهي الإسلامي، مكة المكرمة
[2] أيضاً:ص7
[3] أیضاً