کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 24
ہے، اور اس قسم کی گنتی کہ جس میں ماہرین فن کی رائے کو بھی علمائے مجتہدین کی رائے کے برابر حیثیت حاصل ہو، شرعی احکام کے قبول و عدم قبول میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔مثال کے طور پرمعاصرمعاشی ماہرین کی بات کریں تو ان کی اکثریت تو اس بات پر متفق ہو سکتی ہے کہ سود کے بغیر کسی مسلمان ریاست کا معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔
اس میں بہر حال کوئی شک نہیں ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے عمل میں مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے رہنمائی لی جا سکتی ہے تا کہ علماء کے لیے فقہ الوقع کو سمجھنے اور مختلف أحوال و ظروف پر قرآن و سنت کی نصوص کے اطلاق میں آسانی پیدا ہو، لیکن اس رہنمائی کی وجہ سے نہ تو ماہرین فن مجتہد بن جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے اس عمل کو ’عملِ اجتہاد‘ کہیں گے۔امام محمد(متوفیٰ 189ھ) اپنے فتاویٰ میں عرف کا لحاظ رکھنے کے لیے بازاروں کا بہت زیادہ چکر لگاتے تھے تاکہ بیع و تجارت کی اقسام، انواع، شروط اور احوال سے واقف رہیں۔امام محمدکے ان فتاویٰ کے بارے، جو انہوں نے بازار میں موجود تاجروں سے رہنمائی کی روشنی میں جاری کیے، ہم یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ وہ اجتماعی اجتہاد کی ایک قسم ہے۔اجتہاد شرعی حکم کی تلاش یا تطبیق کا نام ہے اور فقہ الواقع کی معرفت نہ تو شرعی، حکم کی تلاش ہے اور نہ ہی اس کی تطبیق۔ جبکہ مجتہدین ،ماہرین فن سے صرف فقہ الواقع کی معرفت ہی حاصل کرتے ہیں۔
چوتھی تعریف
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ (متوفیٰ 2015ء) اجتماعی اجتہاد کی تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’وأما الاجتهاد الجماعي: فهو اتفاق مجموعة من العلماء على حکم شرعی في بعض المسائل الظنیة بعد النظر والتأمل في البحوث المقدمة والآراء المعروضة في مؤسسة أومجمع. ‘‘[1]
’’اجتماعی اجتہاد سے مراد کسی ادارے یا اکیڈمی میں موجود علماء کی ایک جماعت کا، اپنے سامنے پیش کی گئی تحقیقات اور آراء کی روشنی میں،ظنی مسائل میں غور وفکر کے بعد ،ان کے شرعی حکم کے بارے میں ایک اتفاقی رائے جاری کرناہے۔‘‘
اس تعریف پر بھی دو اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اجتماعی اجتہاد کسی فعل کا نام ہے یا نتیجے کا؟اگر تو یہ ایک فعل ہے تو جب علماء کی ایک جماعت نے کسی مسئلے کے شرعی حکم پر مل بیٹھ کر بحث کر لی تو ان کا یہ فعل ہی اجتماعی اجتہاد ہے، چاہے ان کا اس مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق ہو یا نہ ہو۔ دوسرا ممکن اعتراض یہ ہے کہ ادارے یا اکیڈمی کی قید لگانا ایک اضافی قید ہے۔یہ کام اداروں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ،جیسا کہ بعض اوقات کسی دار العلوم
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في مواجهة مشکلات العصر:ص6