کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 23
بلکہ اگر مجتہدین کی ایک جماعت نے جمع ہو کر آپس میں مباحثہ کیا اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے یا انہوں نے کسی مسئلے میں توقف اختیار کیا توپھر بھی اس عمل کو اجتماعی اجتہاد ہی کہیں گے۔‘‘
تیسری تعریف
ڈاکٹر توفیق الشاوي اجتماعی اجتہا د کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جری العرف على أن المقصود بالاجتهاد الجماعي هو تخصیص مهمة البحث واستنباط الأحکام بمجموعة محدودة من العلماء والخبراء والمتخصصین ، سواء ما رسموا ذلك بالشوری المرسلة، أم في مجلس یتشاورون فیه ویتداولون، حتی یصلوا إلى رأی یتفقون علیه أو ترجحه الأغلبیة، ویصدر قرارهم بالشوری ولکنه یکون في صورة فتوی. ‘‘[1]
’’عرف کے مطابق اجتماعی اجتہاد سے مرادبحث و تحقیق اور استنباط احکام کا کام علماء ، اسکالرز اور ماہرین فن کی ایک متعین جماعت کو سونپ دینا ہے۔ اب برابر ہے کہ وہ سب ایک ایسی مشاورت قائم کریں جو کھلی اور عام ہو(مثلاًپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کے ذریعے)یا وہ ایک ہی مجلس مشاور ت کا اہتمام کریں کہ جس میں وہ اس موضوع پر مشورہ اور گفتگو کریں یہاں تک کہ وہ سب یا ان کی اکثریت ایک متفقہ رائے تک پہنچ جائے۔ان کی پاس شدہ تجویزباہمی مشاورت سے جاری ہو لیکن وہ فتویٰ کی صورت میں ہو۔‘‘
’اجتماعی اجتہاد‘ کی اس تعریف پر یہ بڑا اعتراض وارد ہوتا ہے کہ تمام اصولیین اور فقہاء کے نزدیک اجتہاد کے لیے مجتہد ہونا لازم ہے اور اس کی مخصوص شرائط ہیں۔پس اجتماعی اجتہاد بھی ایسے افراد کا فعل ہو گا جو مجتہدین امت ہوں جبکہ اجتماعی اجتہاد کی مذکورہ بالا تعریف میں ماہرین معاشیات، متخصصین طب اور فقہائے امت کی حیثیت برابر ہے او ر ان سب کے فعل کو اجتہاد کہا جارہا ہے اور یہ بات قطعی طور پرمعلوم ہے کہ ایک ماہر سرجن یا انجینئر یا پی۔ ایچ۔ ڈی اکنامکس مجتہد تو کیا ، دین کے ایک ابتدائی طالب علم جتنا علم دین بھی نہیں رکھتے ہیں الا ما شاء الله۔ اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف کو ماننے سے یہ لازم آئے گا کہ اجتہاد کو علمائے مجتہدین اورماہرین فن عامۃ الناس کا ایک فعل قرار دیا جائے نہ کہ صرف مجتہدین امت کا۔
اس تعریف پردوسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ فرض کریں، دس افراد کی ایک جماعت مل کر کسی معاشی مسئلے میں غور کرتی ہے جن میں سے چار ماہرین فن ہیں اور چھ علماء ہیں ۔اب چار ماہرین اور دو علماء کی ایک رائے ہے جبکہ چار علماء دوسری طرف ہیں ۔لہٰذا اجتماعی اجتہاد کی اس صورت میں دوعلماء کی رائے چار علماء کے مقابلے میں بھاری اور وزنی شمار ہو گی۔پس اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف میں اصل حیثیت علماء یا علم دین کی نہیں بلکہ گنتی کی
[1] الشاوي، توفيق، الدكتور، فقه الشوری والاستشارة: ص242، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع، المنصورة، الطبعة الأولى، 1412ھ