کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 22
اس کو اجتماعی اجتہا دکہیں گے۔اور اگر علماء کی ایک جماعت کا کسی معین اجتہاد پر باہمی ملاقات ومشاورت کے بغیر اتفاق ہو گیاتو ان کے اس اجتہاد یا اتفاق کو اجتماعی اجتہاد کا نام نہ دیا جائے گا۔اسی طرح اگر علماء نے باہم مل بیٹھ کر کسی مسئلے میں مشاورت کی اور ان کا آپس میں اختلاف ہو گیا۔پس ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور نقطہ نظر کو واضح کیااور کسی ایک رائے پر ان سب کا اتفاق نہ ہو سکا۔اب اگر علماء کی اس مجلس میں ایک گروہ اپنے نام سے کوئی اتفاقی فتویٰ جاری کرتا ہے تو اسے بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے،خاص طور پر جبکہ اس مجلس کی اکثریت کسی رائے پر متفق ہو۔‘‘ ڈاکٹر احمد ریسونی کا کہنا یہ ہے کہ اگر علماء کی ایک مجلس میں کسی مسئلے کے بارے کئی ایک آراء سامنے آئیں اوراس مجلس کے علماء کی اکثریت یا ایک فریق، کسی ایک رائے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کے مطابق فتویٰ جاری کر دے تو اسے بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے، لیکن اگر مجلس کے تمام اراکین میں ہی اختلاف ہو جائے اور دو سے زائد علماء کسی رائے پر متفق نہ ہوں تو پھر ہر ایک کا فتویٰ انفرادی اجتہاد ہو گا نہ کہ اجتماعی۔ ہمیں جو بات محسوس ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے بنیادی عناصر جماعت اور باہمی مشاورت ہے۔ یعنی اگر علماء کی ایک جماعت کسی مسئلے کا شرعی حل پیش کرنے کے لیے باہمی مشاورت کرے تو اس عمل کو اجتماعی اجتہاد کہیں گے،جہاں تک ان سب یا ان کی اکثریت کے اتفاق کا معاملہ ہے تو وہ اجتماعی اجتہاد کے اس فعل کا نتیجہ ہے۔مباحثے و مکالمے کے بعدبعض اوقات یہ اتفاق حاصل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ہمارے نقطہ نظر میں ایک متعین مسئلہ میں علماء کے باہمی مکالمے و مباحثے کے بعداگر دو افراد کے مابین بھی اتفاق حاصل نہ ہو تو اس کو بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے کیونکہ ایک شرعی مسئلے کی تلاش میں اجتماعی کوشش تو صَرف ہوئی ہے۔اس لیے علماء کی اکثریت کا اتفاق اجتماعی اجتہاد کے عمل کے لیے خارجی وصف کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ رکن کی اہمیت کا۔ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیدفرماتے ہیں: ’’ عبارة: (اتفاقهم) و (اتفاق) فهذا الوصف خارج عن ماهیة الاجتهاد الجماعی إذ الاتفاق أحد نتائج هذا الاجتهاد وفرق بین الشیء ونتیجته، وإنه لیس من شرائط تحیقق الاجتهاد الجماعی أن یخرج منه المجتهدون بالاتفاق بل لو أنهم اجتمعوا وتباحثوا ولم یتوصلوا إلى شیء أو حصل منه متوقف لصدق على ذلك أنه اجتهاد جماعی. ‘‘[1] ’’فقہاء یا مجتہدین کے اتفاق کی قید ایک ایسا وصف ہے جو اجتماعی اجتہاد کی ماہیت سے خارج ہے، کیونکہ ان کا اتفاق تو اس عمل اجتہاد کا ایک نتیجہ ہے اور کسی شیء اور اس کے نتیجے کے مابین فرق ایک واضح امر ہے۔اجتماعی اجتہاد کے ثبوت کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ اس پر تمام مجتہدین کا اتفاق ہو تو پھر ہی وہ اجتماعی اجتہاد ہوتا ہے،
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر: ص15