کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 21
دوسری تعریف ڈاکٹر خلیل العیداجتماعی اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اتفاق أغلب المجتهدین من أمة محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر من العصور على حکم شرعی في مسألة. ‘‘[1] ’’امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ، اجتماعی اجتہاد ہے۔‘‘ ڈاکٹر خلیل العید کی اس تعریف پر بھی وہ تمام اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ کی تعریف پر ہیں۔پہلی تعریف پر وارد ہونے والے اعتراضات کے علاوہ ایک اور اعتراض جو مذکورہ بالا تعریف پر وارد ہو سکتاہے، وہ یہ ہے کہ کسی مسئلے پر فقہاء کی اکثریت کا اتفاق تو اس طرح بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ کسی ایک مجتہد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہو اور اسی زمانے میں کچھ اور مجتہدین بھی اس کی رائے سے متفق ہو گئے، جبکہ اس طرح کے اتفاقی اجتماع کو کوئی بھی اجتماعی اجتہاد نہیں کہتا ہے۔اگر امام مالک﷫نے کسی مسئلے میں کسی رائے کا اظہار کیا اور امام شافعی اورامام احمد رحمہم اللہ وغیرہ کا ان سے اتفاق ہو گیا، جیسا کہ اکثر و بیشتر مسائل میں ہوتا ہے کہ ائمہ ثلاثہ کا موقف ایک ہی ہے ،تو کیا یہ اجتماعی اجتہاد ہو گا؟حالانکہ اس کو اجتماعی اجتہاد کوئی بھی نہیں کہتا ہے۔ڈاکٹر احمد ریسونی لکھتے ہیں: ’’وبغض النظر عن الاختلاف في الصیغ التعریفیة المفضلة عند کل واحد، فلا أحد یخالف في أن (الاجتهاد الجماعي): هو الذی ینبثق مضمونه ویصدر عن جماعة من العلماء، بعد التشاور والتحاور في المسألة المجتهد فیها. فدخول عنصری (الجماعة والتحاور) في الجهد الاجتهادی، وفي الموافقة على نتیجته، هو الذی یعطی الاجتهاد صفة (الجماعی). فلو اتفق عدد من العلماء على اجتهاد معین، دون تلاق ولا تحاور بینهم، فلا یکون اجتهادهم واتفاقهم اجتهادا جماعیاً وکذلك إذا تلاقوا وتحاوروا في المسألة، لکنهم اختلفوا وعبر کل منهم عن اجتهاده ووجهة نظره. نعم إذا لم یتفقوا جمیعاً، وصدر الاجتهاد أو الفتوی باسم فریق منهم فإنه یکون اجتهادا جماعیاً لا سیما إذا کان المتفقون هم الأکثریة. ‘‘[2] ’’اگر اجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفوں میں موجود اس اختلاف سے صرف نظر کریں جوہر تعریف کے واضع کے نزدیک اہم ہے، تو اس بات سے تو کسی عالم دین کو اختلاف نہیں ہو گا کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو کسی مجتہد فیہ مسئلے میں باہمی مشاورت و مکالمے کے بعد علماء کی ایک جماعت سے صادر ہواور پانی کی طرح از خود جاری ہو جائے(یعنی پہلے سے طے شدہ نتائج یا اتحاد و اتفاق کے حصول کے لیے نہ ہو)۔پس اجتہادی کوشش میں جب جماعت اور باہمی مشاورت کا عنصر شامل ہو جائے اور بعد ازاں اس پر علماء کی موافقت بھی حاصل ہو جائے تو
[1] الاجتهاد الجماعی و أهمیته في نوازل العصر: ص13 [2] أحمد الريسوني، الدكتور، الاجتهاد الجماعی: ص3، المجمع الفقه الإسلامي، مكة المكرمة