کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 20
کے موقفات کی چھان پھٹک اور دلائل کی رد و قدح کے بعد شورائی طریقے پر صادر ہواوریہ سب عمل مختلف قسم کی مجالس، اداروں اور سیمیناروں وغیرہ کا نتیجہ ہو۔اگر ایسا ہوکہ کسی مسئلے کے شرعی حکم میں علماء کی آراء بغیر کسی مشاورت کے اتفاقاً ایک دوسرے کی تائید میں ہوں تو یہ اجتماعی اجتہاد نہ ہوگا بلکہ اس کو ہم ان کے اجتہاد کی باہمی موافقت کا نام دیں گے۔‘‘
’اجتماعی اجتہاد‘ کی تعریف میں باہمی مشاورت کے عمل کو جس طرح ڈاکٹر عبد المجید نے واضح کیا ہے وہ ایک اہم نکتہ ہے ۔اسی طرح انہوں نے کسی مسئلے میں علماء کی باہمی مشاورت کے جو ذرائع بیان کیے ہیں ، ان کا انکار نہیں ہے لیکن ان میں اہم ترین ذریعہ تحریری مباحثہ و مکالمہ ہے جس کا تذکرہ انہوں نے نہیں کیا۔بعض اوقات ایک عالم دین اپنی کسی کتاب، مقالے یا تحقیقی مضمون میں کسی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس پر دوسرے علماء کی طرف سے مثبت و منفی آراء کا اظہار شروع ہو جاتا ہے ۔اس طرح معاصر تحقیقی رسائل و جرائد یا کتب میں بحث ونقدکے اس سلسلے میں علماء اپنی آراء قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک خاص وقت کے بعد علماء کی ایک اکثریت اس رائے کی حامل ہوتی ہے کہ جس کو ایک عالم نے شروع میں پیش کیا تھا۔مثال کے طور پر کیمرے کی تصویر کو ہی لے لیں۔اس بارے میں بعض علماء مثلاً ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے جواز کا فتوی جاری کیا‘ جس پر مختلف علماء کی طرف سے نقد کی گئی اور اس طرح ایک تحریری مناقشہ کے بعد آج علماء کی اکثریت کیمرے کی تصویر کے جوازیا عدم جواز میں سے کسی ایک موقف کی حامل ضرور ہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃاس قید کی مزید شرح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’وأیضاً في قوله: بعد تشاورهم، وصف یتبین منه الفرق بین الاجتهاد الجماعی والإجماع، فالجماعی یلزم أن یکون مبنیاً على الشوری، أما الإجماع فلا یشترط فیه تشاور المجتهدین، إذ لو حدث اتفاق جمیع المجتهدین على حکم شرعي دون أن یسبق ذلك تشاور، صح الإجماع. ‘‘[1]
’’علماء کے مشورے کے بعد کسی رائے پر اتفاق کی قید اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ اجماع اور اجتماعی اجتہاد میں فرق واضح ہو جائے، کیونکہ اجتماعی اجتہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ شوریٰ پر مبنی ہو،جبکہ اجماع کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں مجتہدین کی باہمی مشاورت شرط نہیں ہے،اگر کسی مسئلے میں بغیر کسی مشورہ کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو گیا ہوتو یہ اجماع کہلائے گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ’اجتماعی اجتہاد‘ اور اجماع میں فرق کے اعتبار سے ایک اچھا نکتہ بیان کیا ہے ۔’اجتماعی اجتہاد‘ اگرچہ اجماع تو نہیں ہے لیکن وہ اجماع کے حصول کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
[1] الاجتهاد الجماعی في التشریع الإسلامی: ص47