کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 19
ایک ہی مجلس میں ان کی اکثریت اس کے شرعی حکم پر اتفاق کر لے بلکہ اس مسئلے پر کئی ایک مجالس میں رد و قدح کے بعد ان کی اکثریت کسی ایک موقف تک پہنچ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ دلائل کے تبادلہ خیال میں دلیل کی قوت کو قبول کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اورمذہبی تعصب یا فرقہ وارانہ پس منظر میں رد عمل کا شکار ہو کر اپنے موقف پر مصر نہ رہیں۔علاوہ ازیں باہمی اتفاق و اتحاد رائے بھی ان پر اس قدر سوارنہ ہو کہ وہ اس جذبے کو حق بات پر ترجیح دینے لگ جائیں۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃاجتماعی اجتہاد کی تعریف میں دوسری قید کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وأیضاً في قوله: (اتفاقهم جمیعاً أو أغلبهم)، فیه بیان للفرق بین الاجتهاد الجماعی والإجماع، فالإجماع یشترط فیه اتفاق جمیع المجتهدین من أمة محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم على حکم شرعی، بینما الاجتهاد الجماعي یکفي فیه اتفاق مجموعة من العلماء المجتهدین أو أکثر العلماء المجتهدین، ولا یشترط فیه اتفاق جمیع المجتهدین، إذ لو تم هذا کان ذلك إجماعاً، وأیضاً یکفي في الاجتهاد الجماعي اتفاق أغلب المشارکین في الاجتهاد. ‘‘[1]
’’شریک علماء میں سب یا ان کی اکثریت کے اتفاق کی قید لگانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اجتماعی اجتہاد اور اجماع میں فرق واضح ہو جائے۔اجماع میں کسی شرعی حکم پر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مجتہد علماء کا اتفاق ضروری ہے، جبکہ ’اجتماعی اجتہاد‘ میں علماء کی ایک جماعت یا اکثر علمائے مجتہدین کا اتفاق بھی کافی ہے۔ اور اگر اس اجتماعی اجتہاد سے قائم شدہ رائے پر باقی تمام علماء بھی اتفاق کر لیں تو یہ اجماع بن جائے گا۔اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اجتماعی اجتہاد میں مجتہد علماء کی اکثریت کی شرکت ہی کافی ہے۔‘‘
ہمارے خیال میں یہ ایک اچھی وضاحت ہے کہ جس سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے خدشے کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃاجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تیسری قید کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وقوله:( بعد تشاورهم) فیه بیان بأن الاجتهاد الجماعی لا بد أن یکون الحکم الصادر عنه قد أتی بعد تشاور أولئك العلماء وتبادلهم للآراء، وتمحیص هم للأفکار، ومناقشتهم للأقوال بطریقة شوریة، من خلال وسیلة یحددونها کالمجالس أو المجامع أو المؤتمرات أو غیر ذلك، أما إذا حدث توافق بین آراء مجموعة من العلماء في حکم شرعي، وکان ذلك دون سابق تشاور بینهم حول ذلك الحکم، فإن هذا لیس اجتهادا جماعیاً، وإنما هو توافق في الاجتهاد. ‘‘[2]
’’تعریف میں علماء کے باہمی مشورے کے بعد ان کے اتفاق کی قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ ’اجتماعی اجتہاد‘ کے لیے یہ بات لازم ہے کہ کسی مسئلے کے شرعی حکم پر علماء کا اتفاق ان کی باہمی مشاورت، تبادلہ خیال ، ایک دوسرے
[1] الاجتهاد الجماعی في التشریع الإسلامی: ص47
[2] أيضاً:ص47