کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 18
کیاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے معاً بعد ان کی اکثریت کے اتفاق کا تذکرہ بھی کر دیا ہے۔‘‘ اسی طرح ڈاکٹرصالح بن عبد اللہ بن حمیدلکھتے ہیں کہ اگر مجتہدین کی ایک بڑی جماعت مثلاً پچاس افراد پر مشتمل مجلس میں کسی مسئلے کے شرعی حکم کے بارے میں بحث و تمحیص کے بعد اختلاف کی صورت میں دو گروہ بن جاتے ہیں۔بڑے گروہ مثلاً چالیس افراد کی رائے ایک ہے، جبکہ چھوٹے گروہ مثلاً دس افراد کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اب اس دوسری جماعت کے اجتہاد پر بھی اجتماعی اجتہا دہی کے لفظ کا اطلاق ہو گا اگرچہ وہ اکثریت میں نہیں ہیں۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’عبارة: (أغلب الفقهاء) و(أغلب المجتهدین) فهذا التنصیص محل نظر من حیث: (أ) إن الحکم بأن المجتمعین هم أغلب الفقهاء أو المجتهدین متعذر.(ب) ثم إن الأقلیة المخالفة یصدق على اجتهادها أنه اجتهاد جماعی.(ج) وکذا لو أن جمعاً من الفقهاء ممن لا یمثلون الأغلبیة اجتهدوا لعد ذلك اجتهاداً جماعیاً صحیحاً. ‘‘[1] ’’اکثر فقہاء یا مجتہدین کی شرط لگاناتین اعتبارات سے محل نظر ہے: 1۔اکثر فقہاء یا مجتہدین کا اتفا ق ایک مشکل امر ہے۔2۔ جس اقلیت نے اس اجتہاد کی مخالفت کی ہے، وہ بھی اجتماعی اجتہاد ہی ہے(اگر وہ دو سے زائد ہوں)۔ 3۔ اسی طرح اگر علماء کی ایک محدود جماعت، جو اکثریت نہ ہو،آپس میں مل کر اجتہا دکرتے ہیں تو صحیح بات یہی ہے کہ اس کو بھی اجتماعی اجتہاد ہی میں شمار کریں گے۔‘‘ ہمارے خیال میں کسی مسئلے میں علماء کی اکثریت کا اتفاق ایک چیلنج تو ہے لیکن ناممکن امر نہیں ہے، لیکن اس اکثریت کو اجتماعی اجتہاد کے عمل کے ایک لازمی جزو کے طور پر بیان نہیں کرنا چاہیے۔ماضی میں کئی ایک مسائل پر علماء کے اجماع کا دعویٰ کیاگیاہے اور یہ دعویٰ صحیح بھی ہے۔ اور ایسے مسائل کی تعداد تو بہت زیادہ ہے جن میں اکثر مجتہدین کا اتفاق ہوتا ہے جیسا کہ ’فقہ المقارن‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں مسائل ایسے ہیں کہ جن میں ائمہ ثلاثہ امام مالک(متوفیٰ 179ھ)،امام شافعی (متوفیٰ 204ھ) اور امام احمد (متوفیٰ 241ھ) رحمہم اللہ کی رائے ایک ہی ہوتی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 150ھ) کی رائے ان سے مختلف ہوتی ہے۔اسی طرح اب تو باقاعدہ اس موضوع پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں کہ ان مسائل کوجمع کیا جائے، جن میں ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔فقہ کے تقابلی مطالعے میں عموماً یہ بات بار بار سامنے آتی ہے کہ ا س مسئلے میں جمہور علماء کا یہ موقف ہے اور یہ اجتماعی اجتہاد ہی کی ایک شکل ہے اگرچہ ان علماء کی رائے کسی اجتماع یا مشورے کے بغیراتفاقاً ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہوتی ہے۔ ہاں! یہ بات درست ہے کہ ایک مسئلہ جب علماء کی ایک جماعت کے سامنے رکھا جائے تو ضروری نہیں ہے کہ
[1] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر: ص15