کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 17
یتحصل من اجتهاده على ظن وقد یتحصل على قطع، وإن کان المقصود به غیره فلیس ذا بال. ‘‘[1]
’’کسی حکم شرعی سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کی عبارت ایک ایسا وصف ہے،جو غیر ضروری ہے۔ پس اگر اس سے مقصود مجتہد ہے تو اس کو تو بعض اوقات ظن حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات علم قطعی۔اور اگر مقصود کچھ اور ہے توپھر اس وصف کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃنے اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تیسری قید یہ لگائی ہے کہ اس اجتہاد میں شریک تمام علماء یا ان کی اکثریت زیر بحث مسئلے کے حکم پر متفق ہو جائے۔وہ لکھتے ہیں:
’’قوله (واتفاقهم جمیعا أو أغلبهم على الحکم)، قید لبیان أن الاجتهاد الصادر من جماعة لا یکون جماعیاً بالمعنی المقصود، إلا إذا نتج عنه حکم متفق علیه من جمیع أولئك المجتهدین أو من أغلبهم. أما إذا لم یتفقوا، وظل کل مجتهد محتفظ برأیه واجتهاده، فلا یتحقق الاجتهاد الجماعی، وإنما تکون النتیجة مجموعة من الاجتهادات الفردیة المختلفة. ‘‘[2]
’’تمام علماء یا ان کی اکثریت کے متفق ہو جانے کی قید اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اجتہاد اس وقت تک اجتماعی نہیں کہلائے گا جب تک کہ تمام مجتہدین یا ان کی اکثریت اس مسئلے کے شرعی حکم پر متفق نہ ہوجائے۔اگرتمام یا اکثرعلماء متفق نہ ہوئے اور ہر مجتہد اپنے اجتہاد اور رائے پر تحفظات کا شکار رہا تو پھر اجتماعی اجتہاد حاصل نہیں ہوگا، بلکہ یہ مختلف انفرادی اجتہادات کا نتیجہ ہو گا۔‘‘
اس قید پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ جس طرح علماء کی اکثریت کا ایک جگہ اجتماع ایک مشکل امر ہے اس سے زیادہ ناممکن کام ان سب یا ان کی اکثریت کا کسی مسئلے میں کسی شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أن قوله:’’واتفاقهم جمیعاً!‘‘ فهذا أبعد من التحقق من الذی قبله، خاصة في هذا الزمن الذی قل فیه المجتهدون اجتهادا فردیاً مع توفر شروط الاجتهاد، التی تکلم عنها کلاماً جیدا دکتور الشرفي ! ولعله لذلك أتبعه بقوله معطوفاً علیه:’’أو أغلبهم ‘‘! فهذا الاجتهاد الجماعی أشبه ما یکون بالاجتهاد الفردی المجمع علیه في تعریف علماء الأصول وأصعب تحقیقا. ‘‘[3]
’’ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃ کا اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تمام علماء کے اتفاق کی قید لگانا ایک ایسی شرط ہے کہ جس کا پایا جانا پہلی شرط کی نسبت زیادہ مشکل ہے، خاص طور پر اس زمانے میں کہ جس میں ایسے مجتہدین بہت کم ہیں کہ جن میں اجتہاد کی وہ شروط پائی جاتی ہوں کہ جن کے بارے میں ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃنے بھی بڑا عمدہ کلام
[1] الاجتهاد الجماعی و أهميته في نوازل العصر:ص 15
[2] الاجتهاد الجماعی في التشريع الإسلامي: ص46۔47
[3] سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة: 10/ 437