کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 15
اکثریت کا باہمی مشورے کے بعد کسی شیء کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینااجتماعی اجتہاد ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ کی یہ تعریف شرح کی متقاضی ہے، لہٰذاوہ اپنی بیان کردہ تعریف کی خود ہی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قوله: (أغلب الفقهاء)، قید لبیان أن الاجتهاد الجماعی یختلف عن الاجتهاد الفردی في کونه جهد جماعة ولیس جهد فرد، وإن هذه الجماعة تکون أغلب العلماء المجتهدین أو أکثرهم. ‘‘[1]
’’فقہاء کی اکثریت کی قید اس لیے لگائی گئی تاکہ اجتماعی اور انفرادی اجتہاد میں یہ فرق واضح ہو سکے کہ اجتماعی اجتہاد فقہاء کی ایک جماعت کی بھرپور کوششوں کا نام ہے نہ کہ ایک فرد کی کوشش کا۔ اور یہ جماعت علمائے مجتہدین کی غالب اکثریت پر مشتمل ہو گی۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ کی یہ بات محل نظر ہے کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی اکثریت کا اجتہاد ہے۔اگر تو اجتماعی اجتہاد کا لغوی معنی دیکھا جائے تو تین علماء کے اتفاق پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لہٰذا فقہاء کی اکثریت کے اتفاق کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔اور اگر تو ڈاکٹر صاحب کی مراد اجتماعی اجتہاد کی اصطلاحی تعریف ہے تو یہ ہے کہ علماء کی اکثریت جب تک اس تعریف کی تائید نہیں کر دیتی،اس وقت تک اس کا بیان کردہ اصطلاحی معنیٰ، اصطلاحی نہیں کہلایا جا سکتا ہے۔ اصطلاح عربی زبان کا لفظ ہے کہ جس کا مادہ ’صلح‘ ہے یعنی اصطلاح اسے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے فلاں معنیٰ پر علماء کی ایک جماعت کی صلح یا اتفاق ہو گیا ہے کہ جب بھی یہ لفظ بولا جائے گا تو اس سے مراد یہ معنیٰ ہو گا۔پس اصطلاح ایک شخص کی نہیں ہوتی بلکہ ایک جماعت جب ایک لفظ کو کسی مخصوص معنیٰ میں استعمال کرتی ہے تو وہ اصطلاح کہلاتی ہے۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ابھی اجتماعی اجتہاد کی اصطلاحی تعریف وضع ہو رہی ہے لہٰذا اس عرصے میں جو صاحب علم بھی اجتماعی اجتہاد کے معاصر تصور کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کریں، وہ اس کو متعین اصطلاحی تعریف کا نام نہ دیں، بلکہ انداز بیان یوں ہو کہ اجتماعی اجتہاد کی ممکنہ اصطلاحی تعریف یہ ہو سکتی ہے۔بعد ازاں اگر علماء کی ایک معتد بہ جماعت کا اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف پر اتفاق ہو جائے تو اس کو اصطلاحی تعریف کا نام دیا جا سکتا ہے۔تا حال معاصر علماء نے اجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں اور ان پر رد و قدح کا عمل جاری ہے۔ڈاکٹر عبد المجیدکی اس تعریف پرایک اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف ہے جو اس کے لغوی معنیٰ پر پوری نہیں اترتی ہے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگرڈاکٹر عبد المجیدکی اس تعریف کودرست مان لیا جائے توعصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے نام سے جتنا کام بھی ہورہا ہے وہ اس تعریف میں شامل نہیں ہوتاہے۔اسلامی فقہ اکیڈمی ہو یا ’’مجمع
[1] الاجتهاد الجماعی في التشريع الإسلامي: ص 42