کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 14
کرنے کے لیے اپنی طاقت صرف کروں گا۔اجتہاد ’جهد‘ سے باب افتعال ہے اور طاقت کے معنیٰ میں ہے۔‘‘ [1] ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمیداجتماعی اجتہاد کا لغوی معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’والجماعی نسبة إلى الجماعة، فالاجتهاد الجماعی هو اجتهاد الجماعة. ‘‘[2] ’’ اجتماعی کا لفظ جماعت کی طرف نسبت ہے اور ’اجتماعی اجتہاد‘سے مراد ایک جماعت کا اجتہا دہے۔‘‘ ’اجتماعی اجتہاد‘کی اصطلاحی تعریف ’اجتماعی اجتہاد‘ کی تعریف ایک جدید تعریف ہے۔سلف صالحین کے مختلف ادوار میں ہمیں اجتماعی اجتہاد کی بعض صورتیں تو ملتی ہیں لیکن اس دور میں اس کی کوئی باقاعدہ تعریف وضع نہیں کی گئی۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید لکھتے ہیں: ’’یعد مصطلح الاجتهاد الجماعی من المصطلحات المعاصرة إذ لم یرد له ذکر عند المتقدمین، أما من حیث الممارسة العملیة فقد شهد تاریخ التشریع الإسلامی جملة من الوقائع التی هی في حقیقتها اجتهاد جماعی وإن لم تسم بهذا الإسم. ‘‘[3] ’’اجتماعی اجتہاد کی اصطلاح ایک جدید اصطلاح ہے اور متقدمین میں اس کا تذکرہ ہمیں نہیں ملتا۔جہاں تک اجتماعی اجتہاد کی عملی صورتوں کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کی تاریخ میں اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہیں جو اجتماعی اجتہاد ہی کی مختلف صورتیں ہیں، اگرچہ انہیں سلف نے اجتماعی اجتہاد کا نام نہیں دیا۔‘‘ معاصر علماء نے اجتماعی اجتہاد کی کئی ایک اصطلاحی تعریفیں بیان کی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں: پہلی تعریف ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ الشرفی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ هو استفراغ أغلب الفقهاء الجهد لتحصیل ظن بحکم شرعی بطریق الاستنباط، واتفاقهم جمیعاً أو أغلبهم علی الحکم بعد التشاور. ‘‘[4] ’’فقہاء کی اکثریت کا کسی حکم شرعی کی بذریعہ استبناط تلاش میں اپنی صلاحیتوں کو کھپا دینا اور پھر ان سب کا یا ان کی
[1] لسان العرب: 3/133۔135 [2] صالح بن عبد اللهّٰ بن حيمد، الدكتور، الاجتهاد الجماعی وأهمیته في نوازل العصر: ص 11، المجمع الفقه الإسلامي، مكة المكرمة [3] أيضاً: ص 12 [4] عبد المجيد السؤسوة، الدكتور، الاجتهاد الجماعی في التشريع الإسلامي: ص 42، وزارة الأوقاف والشوؤن الإسلامية، قطر، الطبعة الأولى، 1998م