کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 13
کہا جاتا ہے: شراب ’’جماع الإثم‘‘ہے یعنی گناہ کو جمع کرنے والی ہے اور اس کی جڑہے۔‘‘ [1]
’المعجم الوسیط‘کے مصنفین لکھتے ہیں:
’’کسی متفرق شیء کو جمع کرنایعنی اس کے بعض حصوں کو بعض سے ملا دینا...اسی طرح کہا جاتا ہے: قوم اپنے دشمنوں کے خلاف جمع ہو گئی ہے یعنی ان سے لڑائی کے لیے وہ ایک جماعت بن گئے ہیں۔قرآن مجید میں ہے : (مسلمانوں سے بعض مشرکین نے کہا )بے شک لوگ(یعنی مشرکین) تم سے لڑائی کے لیے اکھٹے ہو گئے ہیں، پس تم(اے مسلمانو!) ان سے ڈرو‘‘...کسی چیز کے ’جماع‘ سے مراد اس کی اصل کو جمع کرنا اور جتنا کچھ جمع کیا گیا ہو، دونوں مراد ہوتے ہیں۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : شراب گناہ کو جمع کرنے والی ہے ۔اسی طرح کہا جاتا ہے: یہ باب ان تمام ابواب کا جامع ہے یعنی ان کو شامل ہے۔اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے:فلاں شخص بنو فلاں کو جمع کرنے والی اصل و بنیاد ہے یعنی وہ لوگ اس کی طرف پناہ لیتے ہیں، اس کے فیصلوں اور سرداری پر اعتماد کرتے ہیں۔’قدر جماع‘سے مراد عظیم قدر ہے۔‘‘ [2]
اجتہاد کے لغوی معنیٰ پر علامہ ابن سیدہ رحمہ اللہ(متوفی 458ھ) لکھتے ہیں:
’’جُهد‘(ضمہ کے ساتھ)اور ’جَهد‘(فتحہ کے ساتھ)دونوں سے مراد طاقت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیاہے کہ ’جُهد‘ (ضمہ کے ساتھ)سے مراد طاقت ہے اور ’جَهد‘(فتحہ کے ساتھ)سے مراد مشقت ہے...’جَهَدَ‘ اور ’اِجْتَهَدَ‘ دونوں کا معنی ٰہے: اس نے کوشش کی۔‘‘ [3]
علامہ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ جَهد ‘ اور’جُهد‘سے مراد طاقت ہے جیسا کہ اہل عرب کا قول ہے: تواپنی طاقت صرف کر ۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ’جَهد‘ سے مراد مشقت ہے اور’جُهد‘سے مراد طاقت ہے ...اور’جَهَدَ‘ باب فتح سے اور’اجتهد‘ باب افتعال سے ہےاور دونوں کا معنیٰ کوشش کرنا ہے ...’اجتہاد ‘ اور ’تجاہد‘ سے مراد پوری طاقت و قوت کو خرچ کرنا ہے اور حضرت معاذ کی حدیث میں ہے : میں اپنی رائے بنانے میں اجتہاد کروں گا یعنی کسی مسئلے کو معلوم
[1] الأفريقي، محمد بن مكرم، ابن منظور، لسان العرب: 8/53، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1992م
[2] مجمع اللغة العربية، الإدارة العامة للمعجمات وإحياء التراث، المعجم الوسیط: 1/134۔135، مطابع دار المعارف، 1980م
[3] المرسی، علي بن إسماعيل، أبو الحسن، المحکم والمحیط الأعظم: 4/153، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1421ھ