کتاب: رُشدشمارہ 06 - صفحہ 12
حصے میں مختلف اداروں، تنظیموں ، جماعتوں اور حکومتوں کی سرپرستی میں جاری ہے اور آئے روز اس میں تیزی آ رہی ہے، لیکن تاحال اس عمل کی کوئی ایسی جامع مانع تعریف بیان نہیں ہوئی ہے کہ جس پرسب علماء کا اتفاق ہو۔ ہمارے خیال میں اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا،کیونکہ جب بھی کوئی نئی اصطلاح وضع ہوتی ہے تو اس کی قبولیت عامہ میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔اجتماعی اجتہاد پر شائع شدہ مختلف کتابوں، مقالہ جات، رسائل اور مضامین میں اس کی کئی ایک تعاریف بیان کی گئی ہیں۔ان تعریفوں میں بظاہر اختلاف بھی ہے لیکن یہ تنوع کا اختلاف ہے نہ کہ تضاد کا۔جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اجتماعی اجتہاد کا عمل اس وقت ساری اسلامی دنیا میں جاری ہے، لہٰذا عملاًاس کے تصورات میں اختلاف بہت کم ہے ۔لیکن جب علماء اجتماعی اجتہاد کے اس جار ی و ساری عمل کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں تو اس کی تعریف میں ان کا لفظی اختلاف نمایاں ہو جاتاہے۔ذیل میں ہم اجتماعی اجتہاد کی چند ایک تعریفوں کو موضوع بحث بنا کر اس پہلو سے ان کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے کہ وہ تعاریف اجتماعی اجتہاد کے جاری معاصر عمل کا احاطہ کر رہی ہیں یا نہیں؟اور کونسی تعریف ایسی ہے جو اجتماعی اجتہاد کے عمل اور تصور کو جامعیت اور مانعیت کے ساتھ بیان کر رہی ہے۔ ’اجتماعی اجتہاد‘کی لغوی تعریف ’اجتماعی اجتہاد‘ ایک مرکب لفظ ہے جودو اسموں سے مل کر بنا ہے ۔پہلا اسم’اجتماعی‘ ہے اور دوسرا ’اجتہاد‘۔ ’اجتماعی‘ کا لفظ باب افتعال سے بنا ہے اور اس کامادہ ’’ج۔م۔ع‘‘ ہے۔ثلاثی مجرد میں یہ لفظ باب’فتح‘سے آتا ہے اور اس کا مصدر عین کلمہ کے سکون کے ساتھ’جَمْعاً‘ مستعمل ہے۔اس مادے سے باب افتعال کا مصدر’اجتماع‘بنے گا اور اسی سے لفظ ’اجتماعی‘اسمِ منسوب ہے۔ عربی زبان میں’اجتماعی‘ کی بجائے’جماعی‘کا لفظ زیادہ مستعمل ہے، یعنی ’’اجتماعی اجتہاد‘‘ کو عربی میں’’الاجتھاد الجماعی‘‘کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور افریقی رحمہ اللہ (متوفیٰ711ھ) لکھتے ہیں: ’’ جمع‘ باب ’فتح‘ سے جمع کرنے کے معنی میں ہے اور اس کا مصدر’جمعاً‘ ہے...اسی طرح’مجموع‘ سے مراد وہ شے ہے جو اِدھر اُدھر سے جمع کی گئی ہو اگرچہ وہ شیء واحد نہ بھی ہو...اسی طرح ’’جَمْعٌ‘‘ لوگوں کی جماعت کو بھی کہتے ہیں اور ’جمع‘ اہل عرب کے قول’’جمعت الشیء‘‘سے مصدر ہے۔علاوہ ازیں’’جَمْعٌ‘‘سے جمع ہونے والے لوگ بھی مراد ہوتے ہیں۔’’جَمْعٌ‘‘ کی جمع جموع‘ ہے ۔جماعت،’جمیع‘،’ مجمع‘ اور ’مجمعہ‘ وغیرہ کے الفاظ ’’جَمْعٌ‘‘کی جگہ استعمال ہو جاتے ہیں...’’مجمع‘‘ سے مراد لوگوں کی جماعت ہے یا پھر وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں...’’أمر جامع‘‘سے مراد ایسا کام ہے جو لوگوں کو جمع کرنے والا ہوجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جب و ہ کسی جمع کرنے والے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے...’’جِمَاعُ الشیء‘‘ سے مراد اس کا مجموعہ ہے جیسا کہ ’’جماع الخباء‘‘سے مراد خیمے ہیں، کیونکہ’جماع‘سے مراد مجموعی تعداد ہے۔اسی طرح