کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 94
غلامی کی تمام شکلیں ختم کی جاچکی ہیں۔ تحریک ِآزادئ نسواں کا ذہن شادی کو شرعی غلامی کا نام دیتا ہے۔ ہر کوئی برابر ہے۔ ہر عورت بلا امتیاز اسی تنخواہ کی حقدار ہے جو مرد لیتا ہے۔[1] ہر کوئی اپنا معیارِ زندگی بہتر کرنے،اچھی خوراک لباس، اچھی رہائش اور بہترین طبی سہولیات کا آزادانہ حق رکھتا ہے۔ [2]ہر کوئی آزادانہ معاشرتی ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ عورتیں وہ تمام کھیل آزادانہ کھیل سکتی ہیں جو مرد کھیلتے ہیں۔ ہر کوئی آزادانہ سفر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ عورت سفر میں کسی کی اجازت یا رفاقت کی محتاج نہیں۔ ہر کوئی جداگانہ قومیت کا حق رکھتا ہے۔ اگر کسی مرد کی بنا پر عورت کو نیشنلٹی ملتی ہے تو عورت کی بنا پر مرد بھی نیشنلٹی کا اہل ہوگا۔ عورتیں اور مرد بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد حق رکھتے ہیں کہ ہر مذہبی ، معاشرتی امتیاز کے بغیر اپنا لائف پارٹنر خود منتخب کریں۔ وہ نکاح اور طلاق میں برابر کا حق رکھتے ہیں۔ [3]عورت اور مرد کے امتیاز کے بغیر ہر کوئی سیاست میں حصہ لینے کا حق رکھتا ہے اور آزادانہ طور پر اپنے گروہ تشکیل دے سکتا ہے۔[4] عورت اور مرد کے امتیاز کے بغیر ہر کوئی معاشی پیشہ اپنانے کی آزادی رکھتا ہے۔ چھوٹے بچے چاہے شادی کے نتیجے میں پیدا ہوں یا زنا کے نتیجے میں، معاشرے میں برابر کا حق رکھتے ہیں۔ [5]
مرد اور عورت آزا دہیں کہ وہ جسے چاہیں اپنا زندگی کا ساتھی چنیں یا بغیر ساتھی کے زندگی گزاریں یا عورتیں عورتوں سے شادی کریں یا مرد مردوں سے شادی کریں۔ مرد اور عورت شادی کریں یا شادی کئے بغیر جنسی تعلقات استوار کریں۔ قانون اور معاشرہ ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا۔
غرض عورت کے لئے تمام اقدار گرا کر نئے معاشرتی ڈھانچے تعمیر کئے گئے۔ عورت سے وابستہ اسلام کے ہر حکم کو قابل نفرت ٹھہرایا جانے لگا، تاکہ مسلمان عورت ان سے گھن کھائے اور اگر اس کے اندر اسلام کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہو تو وہ اپنے آپ کو اس سے پاک کرلے۔اب تک ہر مسلمان عورت اپنے لئے معیار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ٹھہراتی تھی۔ اب اس کو بتایا جانے لگا کہ تیرے لئے معیار یہ نہیں، فلاں اور فلاں ہیں۔ جو یوں گاتی تھیں اور یوں بے پردہ پھرتی تھیں تیرے لئے اُسوہ اور نمونہ فلاں لیڈر کی فلاں بیٹی، بہن اور بیوی ہے۔ اب تک ہر عورت خواہ اس کا اخلاقی معیار کچھ بھی ہو، یہ سمجھتی تھی کہ ناچنا گانا اچھے لوگوں کا شیوہ نہیں ہے، لیکن مغربی استعمار کے بعد اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ فن تو اسلام کے دورِ اوّل میں پرورش پایا ہے اورحضرت حسین کی صاحبزادی اور خلیفہ اوّل کی نواسی نے نعوذ باللہ یہ کارِسعید انجام دیئے ہیں۔[6]
[1] Ibid, 23, p. 82
[2] Ibid, 25, p. 84
[3] Ibid, p. 82
[4] Ibid, p. 82
[5] Ibid, p. 85
[6] پاکستانی عورت دوراہےپر: ص 114