کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 66
کی۔ جو فارمولا آج مغرب کو سربلند کر گیا ہے، وہی فارمولا ان کے نزدیک مشرق کی خودی کا حل بھی نہیں ہے۔ حقوقِ نسواں کی تحریک سے وابستہ آج بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو اسلام سے مخلص ہیں اور مسلمان معاشروں کے مسائل کا حقیقی حل چاہتے ہیں۔ وہ عورت کے مسئلے کو عدل و انصاف کی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کا ذہن مغرب کی سربلندی کے اصل خطوط کی طرف ان کی رہنمائی نہیں کرتا۔ وہ عورت کے مسئلے کے حل کے لئے مقامی ثقافت کی جگہ مغربی ثقافت کو دینا چاہتے ہیں اور سچی بات یہی ہے کہ مسلم معاشروں میں یہی نقطہ اختلاف ہے۔ درحقیقت وہ ترقی کے نام پر مغرب کی نقالی کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ مشرق کے علماء اس راہ میں ترقی کی بجائے غلامی کی بو محسو س کرتے ہیں اور اپنی قوم کو غلامی سے بچانا چاہتے ہیں۔اُنہیں اپنی قوم کے احساسِ کمتری کا بخوبی اندازہ ہے۔ مغربی تہذیب کا آغاز زیادہ واضح صورت میں سولہویں صدی میں ہوا۔ اس وقت یہ تہذیب فطرت کے قوانین یا فطرت میں چھپی ہوئی طاقتوں کی دریافت کے ہم معنیٰ تھی۔ مگریہ ایک اتفاقی بات تھی کہ اپنے ابتدائی زمانہ میں مغربی تہذیب کے بانی سائنس دانوں نے عالمی فطرت کے جو حقائق دریافت کئے، ان سے قوت پاکر عرصہ دراز سے چلی آنے والی مزعومہ مسیحی عقائد کی قوت کو چیلنج کردیا۔ مسیحیت کے پیشوا چونکہ اس وقت اقتدار میں تھے، اُنہوں نے سائنس دانوں کی سخت مخالفت کی اور اُنہیں سخت سزائیں دیں۔ یہ تصادم اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے صرف اتفاقی تھا، حقیقی نہ تھا۔ مگر جذباتی ہیجان کی بنا پر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا جاسکا اور مغربی تہذیب اپنے آغاز ہی سے عملاً ایک مخالف مذہب تہذیب بن گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی تہذیب کے لوگ مذہب کو اپنا دشمن جاننے لگے اور اہل مذہب نے مغربی تہذیب کو اپنا دشمن فرض کرلیا۔ یہ منفی ذہن ابتدا میں مسیحیت کے مقابلہ میں پیدا ہوا، اس کے بعد وہ توسیع پاکر دوسرے مذاہب تک پہنچ گیا۔ [1] مسلمان معاشروں کی مقامی ثقافتوں کے تقریباً تمام مسلم علماء اور دانشوروں کا رخ مغربی تہذیب کے معاملے میں ابتداء ً منفی رہا۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مغربی تہذیب جب اپنے عروج کو پہنچ کر مسلم دنیا میں داخل ہوئی تو یہ داخلہ صرف ایک تہذیبی داخلہ نہ تھا، بلکہ وہ سیاسی اور ملک گیری کے جلوے میں ہوا جس کو نو آبادیاتی نظام (Colonialism)کہا جاتا ہے۔ مغربی تہذیب کے اس سیاسی مارچ کی زَد سب سے زیادہ جن لوگوں پر پڑی، وہ مسلمان تھے۔ اس وقت ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبہ میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔ مغربی تہذیب کے سیاسی مارچ نے ان مسلم حکومتوں کا خاتمہ کرکے ان کے اوپر اپنا غلبہ قائم کردیا۔ اب یہ سیاسی تہذیبی یلغار تھی۔ ابتداء ً اُنیسویں صدی کے مسلم علماء اور دانشور اس یلغار کے مختلف پہلوؤں میں فرق نہ کرپائے۔ اُنہوں نے مغربی سیاسی غلبہ کو غیر مطلوب جانتے ہوئے
[1] افضال ریحان، اسلامی تہذیب بمقابلہ تہذیب، حریف یا حلیف (انٹرویو) از وحید الدین خان: ص 11، دار التذکیر، لاہور، 2004ء