کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 52
کے لیے یہی اصلی کسوٹی ہے اس وجہ سے کوئی چیز اس کے خلاف قبول نہیں کی جا سکتی۔‘‘ [1]
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے شاگرد غامدی صاحب بھی اصلاحی صاحب کی تائید میں لکھتے ہیں:
’’سند کی تحقیق کے بعد دوسری چیز حدیث کا متن ہے ۔راویوں کی سیرت و کردار اور ان کے سوانح و حالات سے متعلق صحیح معلومات تک رسائی کے لیے ائمہ محدثین رحمہم اللہ نے اگرچہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا اور اس کام میں اپنی عمریں کھپا دی ہیں ‘لیکن ہر انسانی کام کی طرح حدیث کی روایت میں بھی جو فطری خلا اس کے باوجود باقی رہ گئے ہیں ان کے پیش نظر دو باتیں اس کے متن میں بھی لازماً دیکھنی چاہئيں:
۱۔ ایک یہ کہ اس میں کوئی چیز قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔
۲۔ دوسری یہ کہ علم و عقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو۔
قرآن کے بارے میں ہم اس سے پہلے واضح کر چکے ہیں کہ دین میں اس کی حیثیت میزان وفرقان کی ہے ۔وہ ہر چیز پر نگران ہے اور حق و باطل میں امتیاز کے لیے اسے حَکَم بنا کر اتارا گیا ہے، لہٰذا یہ بات تو مزید کسی استدلال کا تقاضا نہیں کرتی کہ کوئی چیز اگر قرآن کے خلاف ہے تو اسے لازماً رد ہونا چاہیے ۔‘‘ [2]
تبصرہ
اصلاحی صاحب نے اپنے موقف کی تائید میں جو روایت نقل کی ہے وہ حد درجے ضعیف ہے ۔ اس سلسلہ میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
اِمام ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’الکامل في الضعفاء‘‘ میں اسے’غیر محفوظ ‘ کہا ہے۔[3] اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (م 385 ھ)نے اپنی ’سنن‘ میں اس روایت کو ایک راوی ’صالح بن موسی‘ کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے۔[4] اِمام شافعی رحمہ اللہ نے ’’الرسالة‘‘میں اس روایت کو ’’مردود‘‘ کہا ہے۔[5] علامہ ابن القیسرانی رحمہ اللہ نے ’’ذخیرةالحفاظ‘‘ میں اسکے ایک راوی’ صالح الطلحی‘کو ’’متروک الحدیث‘‘ کہا ہے۔ علامہ عجلونی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1162 ھ) نے
[1] مبادی تدبر حدیث: ص67۔68
[2] غامدی، جاوید احمد، میزان: ص 62، المورد، لاہور، طبع سوم، 2008ء
[3] الجرجاني، أبو أحمد بن عدي، الکامل فی الضعفاء الرجال: 5؍106، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1997م
[4] الدارقطني، أبو الحسن علي بن عمر، سنن الدارقطني: 5؍370، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 2004م
[5] الشافعي، أبو عبد الله محمد بن إدريس، الرسالة: ص224، مكتبة الحلبي، مصر، الطبعة الأولى، 1940م