کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 50
تبصرہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اپنے موقف کے اثبات میں جس روایت کو ذکر کیا ہے، ائمہ جرح وتعدیل کے اس پر اقوال ملاحظہ فرمائیں: اِمام ابن عدی رحمہ اللہ (متوفیٰ 365 ھ)نے اس روایت کو’’الکامل فی الضعفاء‘‘ میں ایک راوی سلیم بن مسلم کی وجہ سے ’غیر محفوظ‘ قرار دیاہے۔ [1]علامہ ابن القیسرانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 507 ھ)نے ’’ذخیرة الحفاظ‘‘ میں لکھا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی یونس بن یزید ’ثقہ‘ نہیں ہے۔[2] اِمام ذہبی رحمہ اللہ (متوفیٰ 748 ھ)نے ’’سیر أعلام النبلاء‘‘میں اس روایت کو منکر کہا ہے۔[3] ابن رجب رحمہ اللہ نے ’’العلوم والحکم‘‘ میں لکھا ہے کہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک اصح قول یہ ہے کہ یہ روایت’ مرسل‘ ہے۔[4] اِمام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (متوفیٰ 277 ھ)نے اس حدیث کو ’معلول‘ قرار دیا ہے۔ [5]علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو ’ضعیف جدًّا‘ کہا ہے۔ [6] پس اس قدر ضعیف روایت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے معیار بنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ صحیح بات یہی ہے کہ اصلاحی صاحب نے حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے جو اصول اور کسوٹیاں بیان کی ہیں وہ ایسی عقلی اختراعات ہیں کہ جن کو شرعی دلائل سے ثابت کرنے کے لیے انہیں ضعیف احادیث کا سہارا لینا پڑاہے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے ایک تو انتہائی ضعیف حدیث کو اپنے فکری استدلال کے لیے دلیل بنایا، دوسراا نہوں نے حدیث کا ترجمہ بھی صحیح نہیں کیا۔ حدیث کے الفا ظ’’ تعرفونه‘‘ کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ جس کو تم جانتے ہوں یا
[1] ابن عدی، أبو احمد عبد اﷲ بن عدی الجرجاني، مقدمة الکامل في ضعفاء الرجال: 4؍338، دار الفکر، بیروت، الطبعة الأولى، 1984م [2] القیسرانی، أبو الفضل محمد بن طاهر، ذخیرة الحفاظ: 4؍2075، دار السلف، الرياض، الطبعة الأولى، 1996م [3] الذهبي، شمس الدين، أبو عبد الله، سیر أعلام النبلاء: 9؍524، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الثالثة، 1985م [4] ابن رجب ،جامع العلوم والحکم: 2؍105 [5] الرازی، أبو محمد عبد الرحمن بن محمد، العلل لإبن أبي حاتم: 2؍310، مطابع المحميضي، الطبعة الأولىٰ، 2006م [6] الألباني، محمد ناصر الدین، سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة: 3؍211، دار المعارف، الرياض، الطبعة الأولى، 1992م