کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 48
مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے حدیث کے غث وسمین میں امتیاز کے لیے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الکفایة‘‘ کو بنیاد بنایا ہے، کیونکہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کو اس کتاب میں کچھ ایسی چیزیں مل گئیں، جن سے بظاہر ان کے نظریات کی تائیدہوتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ’’الکفایة‘‘ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں، باوجودیکہ ’’الکفایة‘‘ میں ضعیف اور منکر روایات کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ہمیں فن اصول حدیث میں ’’الکفایة‘‘ کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، لیکن دیگر علوم کی کتب کی طرح یہ بھی کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کے بعد کوئی عالم بقیہ کتبِ اصولِ حدیث سے بے نیاز ہو جائے۔ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر مولانا اصلاحی رحمہ اللہ’’الکفایة ‘‘ کے علاوہ دیگر کتب اصول حدیث وغیرہ کو بھی سامنے رکھتے تو ان کے لیے واضح ہوجاتا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے میں عقلی ذوق کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ اِمام حاکم رحمہ اللہ (متوفیٰ 405 ھ)کی کتاب ’’معرفة علوم الحدیث‘‘ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی ’’الإلماع‘‘ اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ (متوفیٰ 643 ھ)کی ’’علوم الحدیث ‘‘ اِمام نووی رحمہ اللہ (متوفیٰ 676 ھ) کی ’’التقریب والتیسیر‘‘ حافظ عراقی رحمہ اللہ (متوفیٰ 806 ھ)کی ’’نظم الدّرر‘‘اور ’’ألفیة الحدیث ‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ’’نخبة الفکر‘‘ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 902 ھ)کی ’’فتح المغیث‘‘ اِمام سیوطی رحمہ اللہ کی ’’تدریب الراوی‘‘ اِمام صنعانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1182 ھ) کی’’توضیح الأفکار ‘‘اور امام قاسمی رحمہ اللہ (متوفیٰ1332ھ)کی ’’قواعد التحدیث‘‘ وغیرہ اصول حدیث کے بنیادی مصادر ہیں۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے کسی حدیث کی صحت و ضعف کے جو اصول ’’الکفایة‘‘کے حوالے سے بیان کیے ہیں،ان میں حقیقت یہ ہے کہ موصوف کو علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی با ت سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے علاوہ بھی بعض علماء مثلاً ابن قیم (متوفیٰ 751ھ) ، ابن دقیق العید(متوفیٰ702 ھ)، علامہ بلقینی(متوفیٰ 805 ھ) اور علامہ ابن جوزی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی بعض مقامات پر موضوع روایت کی پہچان کی بعض علامات بیان کی ہیں ۔علماء اس بات کو جانتے ہیں کہ کسی چیز کی علامت اور علت (وجہِ ضعف) میں کیا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا خطیب بغدادی، ابن قیم یا ابن جوزی رحمہم اللہ کا احادیث کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے ذخیرے میں موضوع روایات چھانٹنے کی بنیادی علامتوں میں سے ایک علامت محدثین کرام رحمہم اللہ کا فنی ذوق بھی ہے،ایک بالکل درست بات ہے۔ ان علماء حضرات کے اقوال کا اصل مفہوم یہ ہے کہ بعض علامتیں ایسی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایک محدث پہلی نظر میں ہی کسی حدیث کے صحیح یاموضوع ہونے کے بارے میں ایک فوری رائے قائم کر سکتا ہے،لیکن ان اقوال کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کسی حدیث کے بارے میں کسی محدث کی پہلی رائے یہ ہو کہ وہ موضوع ہے اور بعد میں وہ صحیح یا حسن حدیث کی شرائط پر بھی اترتی ہو تو پھر بھی وہ محدث اس کو ضعیف کہیں گے۔ہم روز مرہ زندگی میں کئی علماء سے جب کسی حدیث کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو وہ اس حدیث کا متن سن کر کہتے ہیں کہ محسوس یہی ہوتا کہ یہ کوئی موضوع روایت ہے ،کبھی نظروں سے ایسی روایت گزری نہیں