کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 46
الصحیحة‘‘میں لکھا ہے:’’إسناده حسن علی شرط مسلم‘‘ [1]
جن ائمہ نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے ان میں سے چند علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
اِمام ابن رجب رحمہ اللہ (متوفیٰ 795 ھ)نے ’’العلوم والحکم‘‘ میں اس روایت کو ’معلول‘ قرار دیا ہے۔[2] اِمام شوکانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1250 ھ)نے’’ الفوائد المجموعة‘‘میں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ خود اس حدیث کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،لہٰذا ا س روایت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت بعید ہے۔[3] اِمام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول اس حدیث کو اگر اس کے متن میں بیان شدہ معیار پر پیش کیاجائے تو یہ اس پر پوری نہیں اترتی ،چہ جائیکہ اس حدیث کو بقیہ ذخیرہ احادیث کی صحت و ضعف کا معیار بنایا جائے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب میں ا س حدیث کو ’’الکفایة‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفیٰ 463 ھ) نے اس حدیث کو عمارہ بن غزیہ کے طریق سے عبد الملک بن سعید بن سوید سے بیان کیا ہے ، جبکہ سوید ، ابی اسید سے اور وہ ابو حمید اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، چنانچہ اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے ۔
مولانا غازی عزیر مبارکپوری حفظہ اللہ نے اپنے ایک مقالہ بعنوان’اصلاحی نظریہ حدیث‘ میں اس حدیث کے راوی ’ عبد الملک‘ کو ضعیف ثابت کیا ہے۔[4] پس یہ روایت مذکورہ بالا انقطاعِ سند اور ایک راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف قرار پائے گی۔
اگر توذاتی کشف ، ذوق ، الہام، القاء، فراست، نور قلب اور خواب وغیرہ کوحدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بنیاد بنایاجائے تو ہرفقیہ اور محدث کے نزدیک صحیح اور ضعیف کا ذخیرہ علیحدہ علیحدہ ہو گا کہ صحت وضعف کا معیار ’’اضافی‘‘ (Relative) ہو جائے گا۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ فیصلہ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے معیار اور کسوٹی ایک ایسی چیز کو بنایا جا رہا ہے، جو کہ حدیث کے ذاتی اوصاف میں سے نہیں ہے ۔آئمہ محدثین رحمہ اللہ نے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے جتنے بھی اصول بیان کیے ہیں، وہ سب حدیث(یعنی
[1] الباني، أبو عبد الرحمن، محمد ناصر الدین، سلسلة الأحادیث الصحیحة: 2؍360، مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الأولى، 1995م
[2] ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد، جامع العلوم والحکم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم:2؍104، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة السابعة، 2001م
[3] الشوكاني، محمد بن علي، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة:ص281۔282، دار الكتب العلمية، بيروت
[4] مبارکپوری، غازی عزیر، انکار حدیث کا نیا روپ: ص 25، مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار، لاہور، 2009ء