کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 42
کی تبیین ہے۔ جب ایک روایت از روئے تحقیق ثابت ہو جائے تو وہ کبھی بھی قرآن کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی کم فہمی کی وجہ سے کسی صحیح روایت کو قرآن کے مخالف پائے، لیکن اس میں روایت میں کوئی قصور نہیں ہے بلکہ اس شخص میں اتنی صلاحیت اور قابلیت نہیں ہے کہ وہ حدیث اور قرآن کے ظاہری تضاد کو دور کر سکے۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ (متوفیٰ 1396 ھ)نے بعض متجددین کا رد کرتے ہوئے بڑی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ علمائے امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے ۔جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہو گیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد یا باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیااور یہ کہہ کر فارغ ہو گئے کہ یہ حدیث خلاف ِقرآن ہونے کے سبب سے غیر معتبر ہے ۔‘‘ [1]
قرآن میں بھی بعض اَوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک آیت دوسری آیت کی مخالفت کر رہی ہے، تو اس وقت مولانا فراہی رحمہ اللہ کبھی بھی یہ نہیں کہیں گے کہ ایک آیت کو رد کر کے دوسری آیت کو قبول کر لو، بلکہ ان کی انتہائی کوشش یہ ہو گی کہ ان دونوں آیات میں معنوی تطبیق پیدا کریں۔ علمائے محدثین رحمہم اللہ کا منہج بھی یہی ہے کہ جب ان کو کوئی صحیح روایت قرآن کریم کی کسی آیت سے بظاہر متضاد نظر آتی ہے، تو وہ اس روایت کو رد نہیں کرتے بلکہ آیت اور اس حدیث کے مفہوم میں ایسی تطبیق پیدا کرتے ہیں کہ جس سے یہ ظاہری تضاد رفع ہو جاتا ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ نے ایسی تمام صحیح روایات، جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ یہ قرآن کے خلاف ہیں، کو قرآن کرام کے مطابق کر کے دکھایا ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ لہٰذا یہ نظریہ کہ کوئی صحیح روایت اگر قرآن کے خلاف ہو تو اس کو رد کر دیا جائے گا، ایک ایسا اصول ہے کہ جس کی کوئی عملی مثال موجود نہیں ہے۔
مولانافراہی رحمہ اللہ نظم قرآن کے ذریعے تفسیر کو تفسیرِ قرآن کا قطعی ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔مولانا کے کلام میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جب کوئی حدیث ، نظم ِقرآن کے خلاف ہو تو اس حدیث کو رد کر دینا چاہیے۔مولانافراہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بعض روایتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کی تاویل نہ کی جائے تو ان کی زد براہ راست اصل پر پڑ تی ہے اور ان سے سلسلہ نظم درہم برہم ہوتا ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ بہت سے لوگ آیت کی تاویل تو کر ڈالتے ہیں لیکن روایت کی تاویل کی جرأت نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات تو صرف آیت کی تاویل ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ اس کے نظام کی
[1] شفیع، محمد ، مفتی ، معارف القرآن: 6؍188،ادارۃ المعارف ،کراچی،1995ء