کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 37
ایک مختصر تاریخ، اسلامی ممالک کا جغرافیہ اور مسلمانوں سے متعلق جمیع معلومات کو انسائیکلوپیڈیاز کی شکل میں مرتب کیا جائے تا کہ اسلامی قانون سازی کے عمل میں پیش رفت ہو سکے۔ ابجدی ترتیب سے تیار شدہ ان موسوعات سے علماء کے علاوہ عوام الناس اور جدید قانون کے ماہرین کا حلقہ بھی استفادہ کر سکے گا۔ اس قسم کے انسائیکلو پیڈیاز کی تیاری کسی ایک عالم دین کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ علماء ، فقہاء اور مختلف علوم و فون کے ماہرین کی ایک جماعت ہی اس کام کا بیڑا اٹھا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایک انسائیکلو پیڈیاز تیار کیے گئے ہیں جن میں اکثر وبیشتر صرف ائمہ سلف کے فقہی اقوال کی اَبجدی ترتیب پر مبنی ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ دنیائے اسلام کے نامور ترین، جید ترین اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے فقیہ استاذ مصطفی أحمد زرقا نے تجویز پیش کی کہ فقہ اسلامی کے ذخائر اور اصولوں کو ایک انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں تیار کیا جائے۔ جس طرح انسائیکلو پیڈیا میں ہوتا ہے کہ جس فن کاانسائیکلو پیڈیا ہوتا ہے اس فن کے تمام تصورات، مباحث اور موضوعات ابجدی ترتیب سے(alphabetical)شکل میں مرتب کیے جاتے ہیں...چنانچہ اس موضوع پر دو انسائیکلوپیڈیاز تیار ہوئے جن میں ایک کی ترتیب میں خود استاذ مصطفی زرقا بھی شامل رہے۔انہوں نے اس میں بہت کچھ لکھا۔ اس کے مضامین کی ترتیب میں انہوں نے حصہ لیا۔ ان کے کئی شاگرد براہ راست اس کی ترتیب میں شریک تھے۔ یہ ایک بہترین انسائیکلو پیڈیا ہے اور غالباً پینتالیس یا پچاس جلدوں میں مکمل ہو ا ہے۔کویت کی وزارت اوقاف نے ’’موسوعة الفقه الإسلامی‘‘کے نام سے یہ کام کرایا ہے...ایک دوسرا انسائیکلو پیڈیا اور بھی ہے جو اس درجہ کا تو نہیں لیکن علمی اعتبار سے اچھا ہے۔ یہ مصر میں تیار ہوا۔ اس کانام بھی ’’موسوعة الفقه الإسلامی‘‘ ہے۔ یہ نو یا دس جلدوں میں ہے۔‘‘ [1] خلاصہ کلام علمی فکری وحدت کے حصول ، مذہبی اور گروہی تعصب میں کمی، فقہ الواقع کے صحیح علم کے حصول، جدید مسائل کی پیچدگی، اجتماعی اسلامی فقہ کے حصول، فقہ اسلامی کی تدوینِ نو، فقہی مکاتب فکر کے باہمی ربط و تعلق اور اسلامی فقہی انسائیکلوپیڈیاز وغیرہ جیسی مصالح کے حصول کے لیے اجتماعی اجتہاد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ لیکن اجتماعی اجتہاد کی اہمیت یا اسے رواج دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ انفرادی اجتہاد مذموم قرار پانے کہ اجتماعی اجتہاد جس بنیاد پر قائم ہے، وہ انفرادی اجتہاد کی بنیاد ہے۔
[1] محاضرات فقہ : ص529