کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 36
تلفیق وجمع بین المذاہب
’ تلفیق بین المذاھب‘سے مراد ایک مذہب کے ماننے والے علماء کااپنے مذہب کے فتویٰ کو چھوڑتے ہوئے دوسرے مذہب و مسلک کے فتاویٰ کے مطابق فتویٰ جاری کرنا ہے تاکہ کسی خاص مذہب کے فقہی اقوال میں اگر عوام الناس کے لیے کوئی تنگی کا پہلو ہے تو اس کو رفع کیا جا سکے۔ اگر کوئی عالم دین اپنی انفرادی حیثیت میں اس عمل کو اپنائے تو عموماً اس کے مذہبی حلقے میں اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کام اپنے ممالک میں اجتماعی سطح پر بذریعہ اجتماعی اجتہاد کیا ہے اگرچہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ایک مجتہدانفرادی حیثیت میں بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ مولانا مفتی رفیع عثمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1943ء) نے ستم رسیدہ عورتوں کی مشکلات کا فقہی حل تلاش کرنے کے لیے متعدد حضرات کو ’’الحیلة الناجذة ‘‘کی ترتیب کے لیے مقرر فرمایا، میرے والد ماجد رحمہ اللہ اور مولانا مفتی عبد الکریم گمتھلوی رحمہ اللہ ان میں شامل تھے۔ اس میں کئی مسائل میں فقہ مالکی پر فتویٰ دیا گیا، لیکن اس فتویٰ کو شائع نہیں کیا جب تک کہ ہندوستان کے تمام ارباب افتاء سے مراجعت نہیں ہو گئی، اور اصحاب افتاء کی آراء اور تنقیدیں حاصل نہیں ہو گئیں، حرمین شریفین کے فقہاء سے خط و کتابت ہوئی، ان تمام مراحل کے بعد اس کو کتابی شکل میں شائع کرایا۔‘‘ [1]
متأخرین کی ایک بڑی جماعت نے ’تلفیق بین المذاہب‘کے منہج کو برقرار رکھا ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فقہائے حنفیہ کے یہاں اس سلسلے میں بہت سی نظیریں موجود ہیں ۔ شوہر میں بعض عیوب و امراض پیدا ہو جانے کی صورت میں تفریق کا حق، مفقود الخبرکی زوجہ کے لیے تفریق کا حق، تعلیم قرآن اور اذان و امامت پر اجرت ، کمیشن ایجنٹ (سمسار) کے کاروبار جیسے کتنے ہی مسائل ہیں جن میں فقہائے متاخرین نے دوسرے مکاتب فقہ کی آراء سے فائدہ اٹھاکر امت کو مشقت سے بچایا اور’’اختلاف أمتی رحمتی‘‘کا عملی ثبوت پیش کیا ہے۔‘‘ [2]
اسلامی انسائیکلو پیڈیاز کی تیاری
نفاذ اسلام کی طرف پیش قدمی کے لیے عصر حاضر کی بنیادی ضروریات میں ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ ائمہ سلف کی فقہی آراء، اہم شخصیات کا تعارف، تاریخ اسلامی کے اہم واقعات، اسلامی اداروں اور حکومتوں کی
[1] جدید فقہی مباحث : 2؍31
[2] اجتماعی اجتہادتصور، ارتقاء اور عملی صورتیں: ص243