کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 35
اور وہ ہمیں،یہاں تک کہ شافعی رحمہ اللہ آئے اور انہوں نے ہم دونوں کو جمع کر دیا۔‘‘ [1]
آج ذرائع و ابلاغ کی ترقی نے علماء کے اس باہمی رابطے کو آسان کردیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اس رابطے کا بہت فقدان ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی مجالس نے اس خلاء کو پر کرنا شروع کیا ہے۔ اس وقت اجتماعی اجتہاد کے لیے جو فقہی مجالس موجود ہیں‘ ان کی دو قسمیں ہیں۔ بعض مجالس تو ایک ہی مسلک کے علماء پر مشتمل ہوتی ہیں جیساکہ’’هیئة کبار العلماء السعودیة‘‘ہے ۔ جبکہ بعض دوسری مجالس میں تمام مکاتب فکر کو متناسب نمائندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ’’مجمع البحوث الاسلامیة، الأزهر‘‘ہے۔واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں ہونے والے فقہی کام سے عدم واقفیت کی صورت میں کسی بھی اسلامی ملک کے علماء اپنے اجتہادات اور فتاویٰ میں کمال اور جان پیدا نہیں کر سکتے۔ مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اجتماعی اجتہاد کی طرف بڑھنے کے لیے پچھلے صفحات میں اس ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے کہ پہلے قدم کے طور پر اس اختلاف ِمنہج وذوق کے وجود کو تسلیم کیا جائے اور اسے باعث رحمت بھی سمجھا جائے۔ دوسرا قدم اس منزل کی طرف یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہر منہج فکر اور حلقہ فقہ ﴿ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ﴾ کا مصداق بن کر اپنے اپنے خول میں بند رہے، ان کے درمیان ربط و تعلق ہو۔ وہ ایک دوسرے کے فکری و فقہی کام سے واقف ہوں اور اس سے استفادہ کریں، جس طرح اس دور کے فقہاء نے فقہ و افتاء میں کمال و اجتہاد کے لیے دیگر مدارس فقہ کے اقوال سے واقفیت کو ضروری قراردیا تھا، اسی طرح آج کے علماء و فقہاء کے لیے بھی دیگر مکاتب فکر کی آراء سے واقفیت ضروری ہے۔ عالم اسلام میں ہونے والے فقہی و اجتہادی کاموں اور ان کے نتائج فکر سے آگاہی کے بغیر نہ تو کسی کے فقہی و اجتہادی کام میں کمال و جان پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اجتماعی فقہی کاوشوں کی راہ ہی ہموار ہو سکتی ہے۔ آج ذرائع مواصلات کی ترقی نے ایک دوسرے سے استفادے کے اس کام کو آسان بنا دیا ہے۔‘‘ [2]
عالم اسلام کے مغرب یعنی مراکش، تیونس، الجزائر، موریطانیہ اور لیبیا وغیرہ میں ا س وقت کیا کچھ علمی کام ہو رہا ہے، برصغیر پاک و ہند کے علماء اس سے ناواقف ہیں۔ مدارس دینیہ یا اسلامی جامعات کی لائبریریوں میں شاذ ہی کوئی کتاب ایسی نظر آئے جو بلاد مغرب کے فقہاء و علماء کے علمی کام کا نتیجہ ہو۔زیادہ سے زیادہ ہمارے ہاں سعودی یا مصری علماء کی تحقیقات کتابی صورت میں کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتی ہیں۔اس کے علاوہ اکثر و بیشتر عرب ممالک، خلیجی ممالک، براعظم افریقہ کے مسلم ممالک ،انڈونیشیا، ملائیشیااور غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمان علماء کی تحقیقات سے آج ہم ناواقف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ باہمی ربط و تعلق کا فقدان ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں اس ربط و تعلق کو بڑھاتے ہوئے علمی دنیا میں بہترین اور معتدل نتائج پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
[1] اجتماعی اجتہاد : تصور ، ارتقاء اور عملی صورتیں : ص 14
[2] ایضاً : ص15