کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 34
ہے۔ ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ انیسویں صدی کے وسط تک فقہ اسلامی ایک غیر مدون قانون تھا جس کا میں تفصیل سے تذکرہ کرچکا ہوں۔ اس کی حیثیت انگلستان کے ایک کامن لاء کی سی تھی۔جو باقاعدہ دفعات کی شکل میں مرتب نہ تھا...یہی کیفیت فقہ اسلامی کی تھی کہ فقہ کی وہ کتابیں، جن میں بعض کا کل میں نے تذکرہ کیا ہے، وہ اور اس طرح کی ہزاروں کتابیں کتب خانوں میں موجود تھیں۔ قاضی صاحبان ان کتابوں سے استفادہ کر کے یہ طے کرتے تھے کہ یہ فتویٰ یا قول یا یہ اجتہاد یہاں اس صورت حال میں متعلق اور(Relative)ہے اور اس معاملہ میں اس کو منطبق کیا جانا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر وہ مقدمات کا فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔ ان اجتہادات یا فتاویٰ کا حکمرانوں یا حکومتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا...یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس سے اہل مغرب مانوس نہیں تھے۔ ان کے تاجر یہ جاننا چاہتے تھے کہ جس قوم اور ملک کے لوگوں سے وہ تجارت کر رہے ہیں اس کے ہاں تجارت کے احکام کیاہیں۔ اس کی وجہ سے اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ یہ قوانین جو ہزاروں کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں جن سے نہ ہر شخص واقف ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہر شخص اس وسیع ذخیرہ کا ماہر ہو سکتا ہے۔ لوگوں کی ضرورت کی خاطر اس کو ایک الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے۔ خاص طور پر مسلمان تاجروں اور ان سے معاملہ کرنے والے غیر مسلم تاجروں کو اس کی ضرورت روز پیش آتی تھی۔‘‘ [1] متنوع فقہی مکاتب فکر کا باہمی ربط و تعلق انفردای اجتہاد کی صورت میں ایک مجتہد عموماً دوسرے مکاتب فکر کے علماء کے موقف سے تو کسی حد تک آگاہ ہوتا ہے لیکن اس موقف کی شرعی بنیادیں یااس کی دلیل کی قوت اس پر اسی صورت واضح ہوتی ہے جب اسے مخالف رائے رکھنے والے علماء سے مل بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ باہمی میل جول سے محبت و اخوت کی فضا بڑھتی ہے اور خواہ مخواہ کے سوئے ظن اور الزام تراشیوں میں کمی آتی ہے۔ سلف صالحین اس باہمی ربط کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ اسی اہتمام کا یہ نتیجہ تھا کہ امام شافعی نے امام محمد (متوفیٰ 189ھ)کی اور امام محمدنے امام مالک،امام شافعی نے امام مالک اور امام احمد نے امام شافعی رحمہم اللہ کی شاگردی اختیار کی۔ مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’دوسری صدی ہجری میں، اور تیسری صدی کے اوائل میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان ربط اور باہمی استفادے کا جو سلسلہ تھا، اس کی کچھ جھلک اوپر کی سطور میں دیکھی جا چکی ہے، اس کے باوجود جہاں جہاں ایک دوسرے کو پورے طور پر سمجھا نہیں گیا، وہاں غلط فہمیاں بلکہ محاذ آرائیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ چناچہ امام احمد رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کے اہل علم پر احسانات شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ ہم اہل رائے کو بر ابھلا کہتے رہے
[1] محاضرات فقہ : ص 519