کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 33
تربیت وغیرہ سے متعلقہ علوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس مسئلے پر صرف ایک علم کی روشنی میں غور و فکر کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک لازمی امر ہے کہ ایسے مسائل میں اس مقدمے سے متعلق تمام علوم کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ اس کام کے لیے ایک جماعت کھڑی ہو گی تو یہ کام ہو گا۔ اگر ایک فرد اس کام کے لیے کھڑا ہو تو ناممکن نہ سہی کم از کم مشکل ضرور ہو گا،کیونکہ اکیلے شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان علوم شرعیہ سے بھی واقف ہو جو اصولیین نے اجتہا دکی شرائط میں بیان کیے ہیں اور معاصر معاشرے و ماحول کی مشکلات کا بھی خصوصی ادراک رکھتا ہو۔ پس اس قسم کے مسائل میں فقہاء کی ایک جماعت کی طرف سے اجتہاد کا یہ فریضہ سر انجام دینا چاہیے۔‘‘ [1]
ایک اور مقام پرڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ معاملہ یہ ہے کہ اس زمانے میں علماء تمام علوم و معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے جیسا کہ سابقہ علماء کا طرز عمل تھا۔ کیونکہ ہمارے پچھلے علماء شرعی علوم کے علاوہ طب، الجبرا اور علم فلکیات وغیرہ جیسے علوم انسانی کا بھی ادراک رکھتے تھے ۔‘‘ [2]
علوم کی وسعتوں کا احاطہ نہ کرنے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انفرادی اجتہاد پر مطلقاً پابندی ہی لگا دی جائے بلکہ انفرادی معاملات میں انفرادی اجتہاد پر پھر بھی عمل ہو گا لیکن کچھ مخصوص اور عمومی نوعیت کے مسائل میں اجتماعی اجتہاد ہی کو منہج و طریقہ کار بنایا جائے۔ ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اجتماعی اجتہاد کی طرف بلانے کااور اسے انفرادی اجتہاد سے بہتر قرار دینے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انفرادی اجتہاد کو سرے ہی سے ختم کر دیا جائے، کیونکہ اجتماعی اجتہاد کا رستہ بھی انفرادی اجتہاد سے ہو کر جاتا ہے اور وہ اس کی بنیاد پر قائم ہے۔‘‘ [3]
فقہ اسلامی کی تدوین نو
عصر حاضر میں کتابت کے انداز و اسلوب میں نمایاں تبدیلیوں کی وجہ سے فقہ اسلامی کے ذخیرے کو از سر نو ایک نئے، آسان فہم اور جدید اسلوب کے مطابق ترتیب دینے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ علماء کے علاوہ وکلاء، عوام الناس اور جج حضرات بھی اس فقہی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ کسی ایک فرد کے لیے ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہے بلکہ علماء، فقہاء اور ماہرین قانون کی ایک جماعت مل کر یہ کام کر سکتی
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص91
[2] الاجتهاد الجماعی وأهمیته في مواجهة مشکلات العصر: ص63۔64
[3] الاجتهاد الجماعی ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص134۔135