کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 32
کی خوب چھان پھٹک ہوتی ہے۔یہ اجتہاد علماء کی ایک جماعت کے تبادلہ خیال اور بحث میں اشتراک کے نتیجے میں نمایاں ہوتا ہے۔ پس اس صورت میں ان کا اجتماعی فیصلہ استنباط میں زیادہ باریکی پر مبنی اور انفرادی اجتہاد کی نسبت صحت کے زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔‘‘ [1] علوم میں تخصص اور وسعت علوم شرعیہ کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں: پہلی قسم علوم عالیہ کی ہے جو کتاب وسنت پر مشتمل ہے جبکہ دوسری قسم علوم آلیہ کی ہے یعنی وہ علوم جو کتاب و سنت کے فہم میں معاون کی حیثیت رکھتے ہوں جیسا کہ علم اصول تفسیر، علم اصول فقہ، علم بلاغت، علم صرف و نحو، علم لغت، علم اصول حدیث ، علوم قرآن اور علوم حدیث وغیرہ۔ ان علوم میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر تحقیقات، مقالات، کتب، رسائل اور مضامین لکھے گئے ہیں کہ ان کا احاطہ اکیلے فرد کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے عصر حاضر میں ان علوم میں تخصص کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ علوم اسلامیہ میں اس قدر وسعت بھی اجتماعی اجتہاد کا ایک نہایت اہم سبب ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں ایک فقہی مجلس میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ ، لغت اور صرف و نحو وغیرہ کے متخصصین مل جل کر غور کریں گے تو تمام علوم کی روشنی میں زیر بحث مسئلے کے جمیع پہلوؤں پر عمدہ تحقیق سامنے آ جائے گی۔ ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف قسم کے تخصصات کا دور دورہ ہے مثلاً کوئی محقق علم کی ایک شاخ، تفسیر، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ یا لغت وغیرہ میں تخصص کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اس زمانے میں علماء تمام علوم و معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے جیسا کہ سابقہ علماء کا معاملہ تھا۔ پس یہ چیز نادر بلکہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا مجتہد یا فقیہ پایا جائے جس میں اجتہاد کی جمیع سابقہ شرائط پائی جا رہی ہوں۔ لہٰذا اجتماعی اجتہاد کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ جس میں مختلف تخصصات کے ذریعے اجتہاد کے لیے مشروط تمام علوم کو جمع کر لیا جاتا ہے اور فقہاء آپس میں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔‘‘ [2] علوم شرعیہ کے علاوہ علوم دنیویہ میں بھی بہت وسعت پیدا ہو گئی لہٰذا فقہ الواقع سے متعلق علوم کا احاطہ بھی کسی اکیلے فرد کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیاہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃلکھتے ہیں: ’’ ہمارے معاصر مسائل میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ متعدد علوم نے ان کو گھیر رکھا ہے اور وہ اس سادہ شکل میں نہیں ہیں جیسا کہ پہلے ہوتے تھے۔ آج ایک مسئلہ ایک سے زائد مثلاً معاشرت، معیشت، سیاست، قانون اور
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص87 [2] الاجتهاد الجماعى ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص120