کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 31
تک کہ وہ سب ایک یا ان کی اکثریت ایک رائے پر متفق ہو جائیں۔ اس عمل میں شوریٰ کے اس بنیادی حکم کی تعمیل ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے’ اور ان کے معاملات باہمی مشاورت سے ہوتے ہیں‘ اور’ اور ان سے معاملات میں مشورہ کریں‘ میں دیا ہے۔‘‘ [1]
حکم شرعی کی تلاش میں صحیح تر رائے کا حصول
اجتہادی مسائل میں خطاء کا امکان برابر باقی رہتا ہے ۔مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے تو بعض اوقات اس کا اجتہاد صحیح ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں غلط‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’إذا حکم الحاکم فاجتهد ثم أصاب فله أجران وإذا حکم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر. ‘‘[2]
’’جب حاکم اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے ۔اور اگر حاکم اجتہاد کرے اور خطا کرے تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔‘‘
اجتماعی اجتہاد کی صورت میں اگرچہ خطاء کا امکان ختم تو نہیں ہوتا لیکن کم ضرور ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں جمیع مکاتب فکر کے علماء کی نمائندگی موجود ہو۔ یہ امکان ہے کہ انفرادی اجتہاد کی طرح اجتماعی اجتہاد میں بھی غلطی ہو لیکن باہمی مشاورت اور تبادلہ خیال کی صور ت میں فقہاء کی جماعت جس رائے تک پہنچتی ہے اس میں صحت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد المجید السؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اجتماعی اجتہادکبار علمائے مجتہدین اور ماہرین فن کے باہمی تعامل، مشارکت اور ایک دوسرے کی تکمیل کے پہلو سے انفرادی اجتہاد سے ایک مختلف شیء ہے، کیونکہ اس میں پیش آمدہ مسئلے کے جمیع پہلوؤں سے واقفیت اور اس کے تمام احوال و جوانب کی سوجھ بوجھ انفرادی اجتہاد کی نسبت بہت زیادہ حاصل ہو جاتی ہے جیساکہ بحث ومباحثہ کی گہرائی اور آراء و دلائل کی اچھی طرح چھان پھٹک، استنباط حکم میں بہت زیادہ باریکی اور صحت کے امکان پیدا کر دیتی ہے۔‘‘ [3]
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’عمومی مسائل میں اجتہادی خطاء سے عوام الناس متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے ان مسائل میں اجتماعی اجتہاد کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں بہت باریکی سے تحقیق ہوتی ہے اور مسئلے کے جمیع پہلوؤں پر غور ہوتا ہے اور کسی بھی رائے
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص77۔78
[2] البخاري، محمد بن إسماعيل، صحیح البخاري، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطا: 7352، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثانية، 1999م
[3] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص79