کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 30
حکمت یہ تھی کہ ما بعدکے زمانوں میں آنے والوں کے لیے بطور سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فعل جاری ہو جائے۔حضرت حسن بصری رحمہ اللہ (متوفیٰ 110ھ) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ قد علم أنه لیس به إلیهم حاجة وربما قال: لیس له إلیهم حاجة ولکن أراد أن یستن به من بعده. ‘‘[1] ’’یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ سے مشورے کی حاجت وضرورت نہ تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ما بعد والوں کے لیے اس بارے میں کوئی سنت جاری کریں۔‘‘ ’’ابن جریر طبری رحمہ اللہ کاکہناہے کہ (اس آیت کی تفسیر میں وارد تین متنوع اقوال میں سے) سب سے بہتر قول ان مفسرین کاہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ عز و جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ سے، دشمنان اسلام کی ان جنگی چالوں وغیرہ کے بارے میں مشورہ کرنے کا حکم جاری فرمایاکہ جن سے آپ کوسابقہ پڑتا تھاتاکہ اس مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت محسوس کریں کہ جن کی اسلام کے بارے میں بصیرت اس قدر واضح نہیں تھی کہ وہ اس بصیرت کے ہوتے ہوئے شیطان کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے ۔ اور (اس مشورے کا ایک اور فائدہ یہ بھی تھا )کہ اس مشورے کے عمل سے امت کو ان مختلف مسائل کے پیش آنے اور ان کےحل کےطریقہ کار کے حوالے سے متنبہ کرنا مقصود تھا کہ جو امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد درپیش آنے والے تھے تاکہ مختلف حوادث کے پیش آنے کے وقت وہ اس فعل (مشاورت) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور آپس میں اسی طرح مشورہ کریں جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کو مشورہ کرتے دیکھتے تھے۔‘‘ [2] ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ﴾ [3] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عبد المجید السؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اجتماعی اجتہاد میں اجتہادی شوریٰ کی بنیاد پوری ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ فقہی مجلس کے مختلف اراکین آراء کے باہمی تبادلہ ،افکار کی چھان پھٹک اور ان کو ہر اعتبار سے پرکھتے ہوئے باہمی مشاورت کی مشق کرتے ہیں یہاں
[1] تفسیر القرآن العظيم لابن أبي حاتم: 3؍801 [2] الطبري، محمد بن جرير، جامع البيان في تأويل القرآن:7؍344، مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 2000م [3] سورة الشوری:42: 38