کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 28
اسی تصور کے بارے میں بعض علماء کا کہنایہ ہے کہ اصولی اجماع کبھی واقع ہی نہیں ہوا بلکہ درحقیقت اجتماعی اجتہادات کا وقوع ہوا ہے۔ اور جس کو اجماع کا نام دیا گیا ہے وہ اصل میں اجتماعی اجتہا دہے۔ان علماء نے اجتماعی اجتہاد کو اجماعِ واقعی کا نام دیا ہے یعنی یہ مختلف اسلامی ادوار میں بالفعل واقع ہوا ہے جبکہ اصولی اجماع عملی طور پر کبھی بھی واقع نہیں ہوا۔ اس رائے کی دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ کے بارے میں جن اجماعات کا دعویٰ کیا گیا ہے، وہ درحقیقت اجتماعی اجتہادات تھے ،کیونکہ جب بھی خلفاء کو کوئی ایسامسئلہ درپیش ہوتا کہ جس میں کتاب و سنت کی کوئی صریح نص موجود نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے سرداروں، بہترین لوگوں اورعلماء کوجمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے تھے۔ جس رائے پر ان کا یہ مشورہ ختم ہوتا اس کو حکم شرعی تصور کیا جاتا۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد تھا۔کیونکہ اس مشاورت کے لیے جو لوگ جمع ہوتے تھے وہ جمیع صحابہ نہ تھے۔خلفاء میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ مروی نہیں ہے کہ اس نے اس مشاورت میں شریک صحابہ کے علاوہ اور دوسرے شہروں میں موجود بقیہ علماء صحابہ کی رائے کی موافقت ہونے تک حکم شرعی میں توقف کیا ہو۔‘‘[1]
اورجمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ اجتماعی اجتہاد نہ تو اجماع ہے اور نہ ہی حجت ہے البتہ اجماع کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کے ذریعے اجماع تام کے حصول کی ایک تجویز پیش کی ہے۔ ذیل میں ہم وہ تجویز ان کے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اور یہ مطلوب اجتماعی اجتہاد ایک بین الاقوامی علمی اسلامی اکیڈمی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ یہ مجلس علاقائی، مذہبی یا قومیتی بنیادوں کی بجائے عالم اسلام کے اعلی صلاحیتوں کے حامل فقہاء پر مشتمل ہو۔ کوئی شخص اس اکیڈمی کی رکنیت کا امیدوار اپنی فقاہت اور تقویٰ کی بنیاد پر ہو سکتا ہے نہ کہ فلاں حکومت یا اس نظام سے تعلق یا فلاں حکمران اور اس نگران سے رشتہ داری۔ یہ ایک ضروری امر کی وجہ سے ہے کہ اس اکیڈمی کو مکمل آزادی حاصل ہو تا کہ یہ مجلس اپنی رائے صراحت سے بیان کرے اوربغیر کسی حکومتی دباؤ یا رعب یا معاشرے کےپریشر سے اپنی قراردادیں جرات سے پاس کرے۔اور اگر اس اکیڈمی کے علماء کا اجتہادی مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کے بارے میں کسی رائے پر اتفاق ہوجائے تو اس کو عصر حاضر کے مجتہدین کا اجماع کہہ سکتے ہیں۔ یہ اجماع فتوی اور قانون سازی میں حجت ہو گا۔ اگر ان علماء کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو جمہور کی رائے راجح ہو گی جب تک راجح قرار دینے کا کوئی دوسرا شرعی سبب موجود نہ ہو۔اسی طرح یہ اجتماعی اجتہاد، انفرادی اجتہاد پر فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس سے بے نیاز کر سکتا ہے، کیونکہ اجتماعی اجتہاد کا رستہ جن بنیادی تحقیقات کی روشنی میں منور ہوتا ہے ، وہ مجتہد افراد کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں تا کہ ان پر اجتماعی مناقشہ ہو سکے۔ انہی انفرادی
[1] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص81۔82