کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 27
اجماع کا حصول قرآن و سنت کے بعد اجماعِ مجتہدین ایک اہم شرعی دلیل ہے ۔ عصر حاضر میں اجماع کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اجتماعی اجتہاد ہے۔ اجماع کی دو بڑی قسمیں ہیں: ایک اجماع تام کہ جس میں اجماع کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں اور دوسرا اجماع ناقص کہ جس میں اجماع کی بعض شرائط مفقود ہوں۔ اجتماعی اجتہاد ایک اعتبار سے اجماع ناقص ہوتا ہے لیکن اجماع تام کے درجے کو پہنچ سکتا ہے۔ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بعض مفکرین کا کہنا یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد ، اجماع تام تک پہنچنے کے لیے ایک پُل کا کام دے سکتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جس مسئلے میں علماء کی کوئی اجتماعی رائے سامنے آئے، اسے بقیہ علمائے مجتہدین کے سامنے پیش کیاجائے۔ پس اگر وہ صراحتاً اس کی تائید کر دیں تو یہ اجماع صریح ہو جائے گا اور اگر وہ اس کو جاننے کے بعد اس میں خاموشی اختیار کریں تو یہ اجماع سکوتی ہو گا۔‘‘ [1] استاذ علی حسب اللہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اجتماعی اجتہاد کو اجماع ناقص شمار کر لیا جائے جیسا کہ علماء نے اجماع کی دو قسمیں بیان کی ہیں: اجماع کامل اور اس سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے اور اجماع ناقص کہ جس میں اکثر مجتہدین کا اتفاق ہوتا ہے۔ اس کو بعض اوقات اجتماعی اجتہاد بھی کہہ دیتے ہیں۔ اس رائے کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ اجماع کامل، امر واقعہ میں صرف انہی مسائل میں ثابت شدہ ہے، جو ضروریات دین سے متعلق ہیں اور ان مسائل میں آپ جس بھی عالم دین سے ملیں گے وہ آپ کی موافقت ہی اختیار کرے گااور اپنے ماقبل والوں سے اس کو نقل کرے گا۔اس کی مثال یہ ہے کہ اس بات پر اجماع کہ دادا، بھائیوں کی موجودگی میں بھی وارث ہوتا ہے اور یہ کہ دادی کے ساتھ نکاح ماں کی طرح حرام ہے اور اگر ماں نہ ہو تو دادی 6؍1 کی وارث ہوتی ہے اور یہ کہ أم الولد (وہ لونڈی جس سے مالک کی اولاد ہو)کی بیع حرام ہے۔‘‘ [2] بعض علماء نے اجتماعی اجتہاد کواجماع واقعی کا نام دیا ہے۔ ان علماء کا کہنایہ ہے کہ اصول فقہ کی اصطلاح میں اجماع تام امر واقعہ میں کبھی بھی واقع نہیں ہوا بلکہ صحابہ کے دور میں بھی جن مسائل پر اجماع کادعویٰ کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت جمہور صحابہ کے اجتماعی اجتہاد سے ثابت شدہ مسائل ہیں۔ ڈاکٹر عبدا لمجید السؤسوۃ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ پس اجماع کی بنیادیعنی جمیع مجتہدین کا اتفاق تو ناممکن ہے لیکن اکثر مجتہدین کا اتفاق ایک ناممکن امر نہیں ہے۔
[1] الشاوي، توفیق، الدكتور، فقه الشوریٰ والاستشارة: ص186، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزیع، المنصوره، الطبعة الأولىٰ، 1412 ھ [2] الاجتهاد الجماعى في التشریع الإسلامى: ص82