کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 26
حوادث میں غور و فکر کرے اور سابقہ علماء کی آراء کی روشنی میں اپنےاحوال کے مطابق اجتہادی آراء مستنبط کرے۔‘‘ [1] دسمبر 1989ء میں اسلامی فقہ اکیڈمی، انڈیا کی طرف سے ہمدرد کنونشن سنٹر، نیو دہلی میں دوسرا فقہی سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کاصدارتی خطبہ جناب مولانا رفیع عثمانی حفظہ اللہ نے پڑھا، جس کا موضوع ’ تغیر پذیر حاالات میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت‘ تھا۔مولانا اپنے اس خطبے میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت و اہمیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ میرے والد محترم یعنی مفتی شفیع رحمہ اللہ (متوفیٰ 1976ء) فرماتے تھے، ایسے اجتماعی مسائل جو پوری امت کو در پیش ہیں یا ملک کے تمام مسلمانوں کو درپیش ہیں ان میں انفرادی فتاویٰ نہ دیئے جائیں۔ ان میں باہمی مشورہ ضروری ہے۔ اور تمام بزرگوں کا یہی طریقہ رہا ہے۔ چناچہ پاکستان میں بھی حضرت والد ماجد رحمہ اللہ اور حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ (متوفیٰ 1977ء) نے ایک مجلس قائم کر رکھی تھی جو آج بھی ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرۃ‘‘ کے نام سے موجودہے۔ اس مجلس کی طرف سے کئی ایک رسائل شائع ہوئے‘ ایک ایک مسئلہ پر بعض اوقات دو دو سا ل تحقیق ہوتی رہی۔‘‘ [2] ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے کہ عمومی اور عوامی نوعیت کے مسائل میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہادکے طریق کا انتخاب کرنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جدید مسائل میں ہمیں انفرادی اجتہا دکی بجائے اجتماعی اجتہاد کی طرف منتقل ہونا چاہیے کہ جس میں اہل علم پیش آمدہ مسائل میں باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ جاری کرتے ہیں خصوصاً جبکہ وہ مسئلہ عمومی نوعیت کا ہو اور عامۃ الناس کی اکثریت سے متعلق ہو۔ کسی شخص کا علمی مقام و مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، پھر بھی اجتماعی رائے میں انفرادی رائے کی نسبت صحت کا امکان زیادہ ہوتاہے۔بعض اوقات ایک شخص کسی موضوع کے ایک پہلو پر غور کرتا ہے جبکہ دوسرا پہلو اس سے اوجھل رہتا ہے۔ بعض اوقات کسی شخص کو کوئی نص یاد ہوتی ہے جبکہ دوسرے کے ذہن میں وہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی طرح بعض اوقات مناقشے سے کچھ چھپے ہوئے نقاط بھی سامنے آ جاتے ہیں یا پوشیدہ أمور روشن ہو جاتے ہیں یا بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ یہ تمام شوریٰ اور اجتماعی عمل کی برکات ہیں جو ہمیشہ افراد کے عمل کے بالمقابل ایک جماعت یا ادارے کے عمل میں حاصل ہوتی ہیں۔‘‘ [3]
[1] الاجتهاد الجماعى ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص127۔128 [2] جدید فقہی مباحث: 2؍ 31۔32 [3] الاجتهاد في الشریعة الإسلامیة: ص182