کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 25
سکیں۔ اس کا صحیح و مفید طریقہ کار یہی ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعے یہ کام ہو۔ جب افکار کا باہم تبادلہ خیال ہو جائے اور آراء عام ہو جائیں تو صحیح رائے سامنے آ ہی جاتی ہے۔ اگر اللہ چاہے ۔‘‘ [1]
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ ایک اور جگہ اسلامی ریاست میں قانون سازی کا طریقہ بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری رائے میں اس کا عملی طریقہ کار یہ ہے کہ ماہرین قانون اور علمائے شریعت کے ماہرین کی ایک جماعت منتخب کی جائے جو کسی خاص مذہب کی تقلید یا کسی خاص رائے کی پابندی کے بغیر ،نصوص قرآن وسنت کی روشنی میں، نئی قانون سازی کے قواعد و ضوابط ایجاد کرے۔ یہ کمیٹی سابقہ ائمہ کے اصول اور فقہی آراء کو سامنے رکھے۔ تمام ماہرین قانون اس کمیٹی کی سرپرستی میں ہوں اور پھر یہ کمیٹی لوگوں کے احوال و ظروف کے مناسب اور کتاب و سنت کے قواعد کے تحت فروعی مسائل مستنبط کرے ۔ لیکن اس کے اجتہادات نہ تو کسی نص سے متصادم ہوں اور نہ ہی دین کی کسی ضروری شئے کے انکار پر مبنی ہوں۔‘‘[2]
عوامی مسائل میں اجتماعی اجتہاد
نفس مسئلہ کے اعتبار سے مسائل کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم تو ان مسائل کی ہے جو کسی شخص کی انفرادی زندگی سے متعلق ہیں جیسا نماز، روزہ اور ذاتی معاملات وغیرہ ۔ مسائل کی دوسری قسم وہ ہے جن کی نوعیت عمومی ہوتی ہے یعنی وہ پوری قوم یا قوم کی اکثریت کے مسائل ہوتے ہیں۔لہٰذا ایسے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے کوئی فیصلہ جاری کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر خلیفہ وقت کی تقرری پوری امت کا اتفاقی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں پوری امت یا امت کے منتخب نمائندوں کی اجتماعی رائے کی روشنی میں خلیفہ وقت کا انتخاب ہونا چاہیے۔استاذ علی حسب اللہ حفظہ اللہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کی د وقسمیں ہیں: پہلی قسم کے احکامات وہ ہیں، جن کا تعلق عبادات سے ہے یعنی وہ براہ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے متعلق امور ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں کہ جن میں اختلافات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ان مسائل میں انفرادی اجتہاد بھی کفایت کر جاتا ہے بشرطیکہ کہ کسی میں اس کی شروط پوری ہوں۔ دوسری قسم کے مسائل وہ ہیں جو معاملات سے متعلق ہیں۔ ان کے بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو باہمی معاملات سے متعلق ہیں۔ ان مسائل میں اختلاف، نظام سے دوری اور عدل سے اجتناب کی طرف لے جاتا ہے، خاص طور پر جبکہ معاشرہ ایک ہی ہو یا ایک ہی جیسے معاشرے ہوں۔ ایسی جگہ میں وہی اجتہاد کوئی علمی فائدہ دیتا ہے جو اجتماعی طور پر ہو یعنی علمائے مجتہدین کی ایک جماعت نئے
[1] الاجتهاد الجماعى ودور المجامع الفقهیة في تطبیقه: ص128
[2] أيضاً: ص129