کتاب: رُشدشمارہ 05 - صفحہ 24
یہ اجتماعی اجتہاد تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسی ایک مجلس بنائی تھی‘ ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں کہ جو بھی نئے مسائل امت کو پیش آتے، خلفائے راشدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجمع کر کے ان سے دریافت کرتے کہ آپ نے کوئی حدیث اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو بتائیں، اگر حدیث مل جاتی تو فیصلہ ہو جاتا ورنہ اجتہاد و قیاس سے فیصلہ کیاجاتا تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کے ساتھ بحث و مذاکرہ کا سلسلہ قائم فرمایا اور تقریباً چالیس عظیم المرتبت تلامذہ کے ساتھ اجتماعی اجتہاد و قیاس کا سلسلہ جاری رکھا۔ عالمگیررحمہ اللہ نے ’’فتاویٰ عالمگیریہ‘‘ مرتب کرنے کے لیے علماء کو جمع کیا، اس زمانے میں حالات بدلے ہوئے تھے ، نئے مسائل پیدا ہوتے تھے، انہیں حل کرنے کی ضرورت تھی اسی لیے ’’فتاویٰ عالمگیریہ‘‘ مرتب ہوا۔اس زمانہ کے فقہاء کی جلیل القدر جماعت مقرر کی گئی۔’’مجلة الأحکام العدلیة‘‘خلافت عثمانیہ میں مرتب ہوا، یہ بھی علماء ہی کی ایک عظیم جماعت نے مرتب کیا۔‘‘ [1]
قانون سازی میں معاونت
اسلامی تاریخ کے تیرہ سوسالوں میں کسی خطہ ارضی میں کوئی متعین اسلامی قانون نافذ نہیں رہا بلکہ عدالتوں میں موجود مجتہد قاضی کسی ایک خاص مسلک کی فروعات یا اپنے ذاتی اجتہادات کی روشنی میں مقدمات کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ اسلامی ممالک میں قانون سازی کا رواج مغرب سے در آمد شدہ ہے۔غیر مسلم ممالک، ریاستوں اور اداروں کے ساتھ تجارتی، معاشی اور معاشرتی تعلقات بڑھنے کی وجہ سے مسلم ریاستوں میں بھی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ بہت سے اسلامی ممالک میں علماء نے قانون سازی کے اس عمل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھانے پر زور دیا کہ جس کے سبب سے عصر حاضر میں فقہی اقوال کی قانون سازی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں سلف صالحین کے فقہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔ بہتر صورت تو یہی ہے کہ کتاب وسنت کی نصوص کو نافذ کر دیا جائے کہ جو جامعیت ان میں ہے وہ ان کے میں نہیں ہو سکتی لیکن اگر بامر مجبوری قانون سازی مطلوب ہو تو قانون سازی کا یہ عمل اسی صورت بہتر اور مطلوب مقاصد حاصل کر سکتا ہے،جبکہ اس کی بنیاد اجتماعی اجتہاد ہو۔ اگر کسی ایک شخص کی اجتہادی آراء کو بطور قانون نافذ کر دیا جائے گا تو اس میں بہت سی کوتاہیاں ہو گی۔علاوہ ازیں اجتماعی اجتہاد کی بنیا د پر قانون سازی کرنے کی صورت میں عوام الناس کا اطمینان نسبتاً زیادہ حاصل ہو گا۔ شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ انفرادی اجتہاد قوانین کے وضع کرنے میں غیر مفید ہے بلکہ شاید ناممکن ہے کہ ایک یا کچھ افرادمل کر یہ کام کر
[1] جدید فقہی مباحث : 2؍ 31